الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
13. بَابُ الشِّقَاقِ وَهَلْ يُشِيرُ بِالْخُلْعِ عِنْدَ الضَّرُورَةِ:
13. باب: میاں بیوی میں نااتفاقی کا بیان اور ضرورت کے وقت خلع کا حکم دینا ہے۔
حدیث نمبر: 5278
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5278]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارياستأذنوا في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   صحيح البخاريفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح البخارياستأذنوا في أن ينكح علي ابنتهم فلا آذن
   صحيح البخاريفاطمة بضعة مني أكره أن يسوءها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد
   صحيح البخاريفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله أبدا
   صحيح البخاريفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح مسلمفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فأوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   صحيح مسلمفاطمة بضعة مني يؤذيني ما آذاها
   صحيح مسلمأنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني فاطمة بنت محمد مضغة مني أكره أن يفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   صحيح مسلماستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يحب ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   جامع الترمذياستأذنوني في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داوداستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم من علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داودفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   سنن ابن ماجهفاطمة بنت محمد بضعة مني أكره أن تفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   سنن ابن ماجهاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يريد علي بن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   المعجم الصغير للطبراني أن على بن أبى طالب ، خطب بنت أبى جهل ، فقال النبى صلى الله عليه وآله وسلم : إن كنت تزوجها ، فرد علينا ابنتنا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5278 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5278  
حدیث حاشیہ:
یہ ایک ٹکڑا ہے اس حدیث کا جو کتاب النکاح میں گزر چکی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے تو وہ اس ارادے سے باز آئے۔
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو دوسرے نکاح سے روکا تو اسی وجہ سے کہ ان میں اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا میں نا اتفاقی کا ڈر تھا۔
آپ نے تو فرما دیا کہ یہ نا ممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہو سکیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5278   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں:
«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.» [شرح كرماني: 159/19]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهي مناسبة جيدة.» [فتح الباري لابن حجر: 345/90]
یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ:
«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن» [فتح الباري لابن حجر: 340/10]

ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔‏‏‏‏
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، «فلا أذن لهم» پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5278  
حدیث حاشیہ:
(1)
واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضی کا اظہار فرمایا کہ اللہ کہ دشمن کی بیٹی اور اللہ کے رسول کی لخت جگر ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوسرے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی اس عقد ثانی پر راضی نہ تھیں، اس بنا پر سیدہ فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہا کے درمیان اختلاف متوقع تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والی ناچاقی کا دفاع کیا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا ہوں تاکہ شروع ہی سے خلع کا سد باب ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مناسبت کو عمدہ قرار دیا ہے۔
(فتح الباري: 500/9) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقد ثانی کی اجازت نہ دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اشارہ دیا کہ وہ نکاح نہ کرے، جب عدم نکاح کا اشارہ دیا جا سکتا ہے تو نکاح کو ختم کرنا، جو خلع کی صورت میں ہوتا ہے، اس کا بھی بوقت ضرورت اشارہ دیا جا سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5278   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]
فوائد ومسائل:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔
قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2069   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2071  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے ۱؎ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرانے کی اجازت مجھ سے مانگی ہے تو میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2071]
فوائد ومسائل:
اس میں نبی ﷺ نے وہ وجہ بیان فرما دی جس کی بنا پر آپ نے حضرت علی رضی اللہ کو دوسری شادی کی اجازت نہیں دی۔
اور وہ یہ کہ دوسرا نکاح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے اذیت کا باعث ہو سکتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہو تا ہے اگر ایسا ہوتا تو اس سے پھر رسول ﷺکو بھی اذیت پہنچتی، جو حضرت علی کے ایمان کے لئے خطرے کا باعث ہوتی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2071   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1998   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1999  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ مسور کہتے ہیں: یہ خبر سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اماب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1999]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
حضرت ابوالعاص بن ربیع رسول اللہ کی بیٹی حضرت زینت رضی اللہ عنہا کے شوہر تھے جو ان کے خالہ زاد تھے۔
ان کی والدہ کا نام ہالہ بنت خویلد ہے۔ (سیرأعلام النبلاء: 1؍441)

ہراہم موقع پر عوام سے خطاب کرتے وقت کلام کو اللہ کی حمد و ثنا اوردرود شریف سے شروع کرنا مسنون ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1999   

  الشيخ ابوبکر قدوسی حفظ الله، ازالہ اشکال، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
´دوسری شادی`
«. . . قال: حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي وإني لست احرم حلالا، ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبنت عدو الله ابدا . . .»
. . .میں کسی حلال (یعنی نکاح ثانی) کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں۔ لیکن اللہ کی قسم! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
فوائد و مسائل
ایک مشہور واقعہ ہے کہ جو حدیث میں آیا ہے اور اس پر ہمارے لبرلز اور ملحدین نکتہ چیں ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔
حدیث میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دوسرا نکاح کرنے سے منع کیا ہو بلکہ حدیث کے شروع میں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:
«اِنِّيْ لَسْتُ اُحَرِّمُ حَلاَلاً، وَلاَ اُحِلُّ حَرَامًا،»
بلاشبہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ ہی حرام کو حلال کرتا ہوں۔۔۔
یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت بھی یہ خیال تھا کہ لوگ کہیں اس سے یہ مطلب نہ نکال بیٹھیں کہ یہ نکاح ثانی کی ممانعت ہے، سو بہت صراحت و وضاحت سے فرمایا کہ
میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کر رہا۔۔۔
پھر حدیث کے اگلے حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی اس تجویز کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان فرمایا:
«وَاﷲِ لاَ تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ وَبِنْتُ عَدُوِّ اﷲِ اَبَدًا»
بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور عدواﷲ کی بیٹی دونوں کبھی جمع نہیں ہوتیں۔
بعض اہلِ علم اس کو بطورِ حکم لیتے ہیں اور بعض بطور خبر۔۔۔۔
لیکن جو بھی سمجھا جائے اس جملے میں چھپا درد سمجھنے کے لئے آپ کو مدینہ سے مکہ واپس جانا پڑے گا، کچھ دیر کے لیے صحن کعبہ کا یہ منظر اپنے تصور میں لانا پڑے گا۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور قریش کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ اس دن مکہ معظمہ میں ایک اونٹ نحر کیا گیا تھا۔ ابوجہل نے کہا کون آل فلاں کے اونٹ کی طرف جائے گا وہاں اس کا گو بر، خون اور اوجھڑی لائے پھر آپ کے سجدہ کے وقت آپ کے کندھوں پر ان چیزوں کو ڈال دے۔ کچھ لوگ گئے اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ ایک بدبخت عقبہ بن ابی معیط نے سجدہ کی حالت میں اس غلاظت کو آپ کے کندھوں پر رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک اس وزن کے سبب سجدے کی حالت میں پڑے رہے۔ کفار مکہ ہنستے رہے حتی کہ ہنسنے کے سبب وہ ایک دوسرے پر جھکے جاتے تھے ہاتھوں پر ہاتھ مارتے اور ٹھٹھہ اڑا رہے تھے۔
ایک شخص نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر دی وہ ابھی کم عمری میں ہی تھیں، دوڑتی ہوئی آئیں آپ ابھی تک سجدہ ہی میں تھے۔ انہوں نے آپ پر سے اوجھڑی ہٹائی اور کافروں کو برا بھلا کہنا شروع کیا۔
جب آپ نے نماز ختم کی تو آپ نے دعاکی کہ
اے اللہ قریش کو پکڑلے۔ اے اللہ قریش کو پکڑ لے۔
یہ بددعا قریش کو بہت شاق گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہوتی ہے جب انہوں نے بددعا سنی تو ہنسنا بند کر دیا اور خوفزدہ ہو گئے۔ پھر آپ نے ایک ایک کانام لیا:
اے اللہ عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف اور عمارہ بن ولید کو پکڑ لے۔
جن لوگوں کے آپ نے نام لیے یہ سب جنگ بدر میں قتل ہوئے اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے۔
[صحيح بخاري كتاب الجهاد والسير باب الدعاء على المشركين، مسلم كتاب الجهاد باب مالقي النبى صلى الله عليه وسلم من ا المشركين المنافقين]
یارو! جس نبی کو طائف والوں نے پتھر مارے اور لہو یوں بہا کہ ایڑیوں پر جم گیا اور جوتے نہیں اترتے تھے۔ پہاڑوں کا فرشتہ شدت غم و غضب سے آیا کہ اس بستی پر پہاڑ الٹ دے، لیکن ادھر رحمت ہی رحمت مسکرا رہی تھی کہ نہیں ان کو خبر نہیں کہ میں کون ہوں اللہ میری قوم کو ہدایت دے۔۔۔۔۔
لیکن آج کیوں دعا، بددعاء ہو گئی۔۔۔ ہاں ننھی فاطمہ کے آنسو، بیٹی کا دکھ اور ظالموں کا ٹھٹھہ دکھ دے گیا۔۔۔۔۔
اور برسوں پر ان ا یہ دکھ اس خبر سے تازہ ہو گیا۔۔۔۔ لیکن دیکھیں رسول کیسے انصاف پرور اور دور رس نگاہ رکھنے والے، مزید فرمایا:
«إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا»
فاطمہ مجھے سے ہے، اسی ایک جملے پر ہزار جہان قربان۔۔ سیدہ کی عظمتیں رشک کے ہزار در کھولتی ہیں۔۔۔
فرمایا:
مجھے خوف ہے کہ فاطمہ اپنے دین کے معاملے میں کسی آزمائش میں نہ گرفتار ہو جائے۔
اب اس امکان کو سمجھیں۔۔ وہ خاتون جو سیدنا عکرمہ کی بہن اور ابی جہل کی بیٹی تھیں، اب مسلمان ہیں اور صحابیہ ہیں۔۔ سو سوکناپے کے رشتے سے عام روٹین میں انسان کا دل تنگ ہوتا ہے تو یہاں تو ایک تلخ ماضی بھی ساتھ ساتھ چلتا آ رہا ہے۔۔ سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھا کہ سوکناپے کے اس رشتے کے بعد، ماضی کی تلخ یادوں کے سبب، سیدہ اس خاتون کے معاملے میں کہیں اعتدال کو کھو نہ بیٹھیں اور اس خاتون کے ساتھ ایسی زیادتی ہو جائے کہ جو گناہ کے زمرے میں آ جائے۔۔۔۔۔ سو اس فکر کا اظہار کیا۔۔۔
اس تمام پس منظر میں اگر کوئی درد دل رکھنے والا ہو، اور اگر کوئی ماضی میں سفر کرے اور کعبے کے اس صحن میں جانکلے کہ جہاں ایک معصوم بچی اپنے بابا پر سے یہ غلاظت ہٹا رہی تھی اور آنسوں کے پیچھے شقی القلب، وحشی صفت لوگوں کے قہقہے گونج رہے تھے۔۔۔ جو ایسا تصور قلب و ذہن میں لا سکے وہ اس رشتے پر موجود تحفظات کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔۔۔ بس پہلو میں دل اور درد دل ہونا چاہیے۔۔۔۔لیکن سنے کون قصہ درد دل۔۔۔۔۔۔
اور اگر آپ کی فہم و شعور سے جنگ نہیں تو ٹھنڈے دل سے غور کریں گے اس نتیجے پر پہنچنا بہت آسان ہو گا کہ یہ فیصلہ حلال و حرام کا نہیں محض انتظامی تھا اور اس کا اتنا ہی فائدہ اس۔ خاتون کو بھی ہوا کہ جو نکاح سے رہ گئی۔۔۔ کیونکہ ایسا تلخ ماضی ہو تو زندگی کبھی خو شگوار نہیں ہوتی۔۔۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6307  
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبرپر یہ فرماتے ہوئے سنا:"بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں،میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6307]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
بضعة:
ٹکڑا حصہ،
جز۔
(2)
يريبني مارابها:
جو چیز اس کے لیے قلق و اضطراب کا سبب ہے،
وہ میرے لیے بھی قلق اور بے چینی کا باعث ہے۔
فوائد ومسائل:
ہشام کے بیٹے حارث رضی اللہ عنہ نے جو ابوجہل کا بھائی تھا،
اس نے اپنی بھتیجی کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے کی اجازت طلب کی،
کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے کا پیغام بھیجا تھا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اس کا پتہ چل گیا تو انہوں نے آپ سے شکایت کی کہ آپ اپنی بیٹیوں کا دفاع نہیں کرتے،
اس لیے آپ نے اس مسئلہ میں خطبہ دیا اور پرزور الفاظ میں اجازت دینے کی بات کی،
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے مشورہ لیا تو آپ نے انہیں بھی اجازت نہ دی،
کیونکہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی والدہ اور تمام بہنیں وفات پا چکی تھیں،
اب ان کی غم خواری کے لیے اور ان کی دلجوئی اور تسلی کے لیے آپ ہی رہ گئے تھے اور وہ اپنا غم کسی اور کو نہیں بتا سکتی تھیں اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا نہیں کر سکتی تھیں اور یہ چیز ان کے لیے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنتی،
اس لیے آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں اور شادی کی اجازت نہ دی،
تاکہ اس کی پریشانی سے آپ کو پریشانی لاحق نہ ہو،
اگرچہ فی نفسہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور شادی کرنا جائز تھا،
نیز دوسرا سبب مخطوبہ (منگیتر)
کا اللہ کے دشمن کی بیٹی ہونا ہے،
اگر وہ اللہ کے دشمن کی بیٹی نہ ہوتی تو زیادہ تشویشناک صورت نہ ہوتی،
ہر عورت طبعی اور فطرتی طور پر اپنے باپ کا دفاع کرتی ہے اور یہاں بھی اس کا امکان موجود تھا کہ سوکن ہونے کی بنا پر وہ کوئی ایسی بات کر لیتی ہے،
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اذیت کا باعث بنتی،
اس لیے خرابی و فساد کے اندیشہ کی خاطر سد ذریعہ کے طور پر آپ نے اجازت نہ دی،
یہ نہیں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور شادی کرنا جائز نہ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6307   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6309  
ابن شہاب رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،انھیں علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نے بتایا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملے اور کہا: آپ کو مجھ سے کو ئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے۔(حضرت علی بن حسین نے) کہا: میں نے ان سے کہا: نہیں (کو ئی کا م نہیں) حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6309]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
هل انت معطي سيف رسول الله:
کیا آپ مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ذوالفقار عنایت کریں گے،
جو آپ کے پاس ہے۔
(2)
اني اخاف ان يغلبك القوم عليه:
مجھے اندیشہ ہے بنو امیہ کے لوگ اس کو آپ سے چھین لیں گے،
یہ مسور کا اپنا خیال ہے،
اگر انہوں نے چھینی ہوتی تو مسور درمیان میں حائل نہیں ہو سکتا تھا،
اگر مجھے دے دو گے تو جب تک میرے جسم میں جان ہے،
کوئی اس تک پہنچ نہیں سکے گا،
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور طیب خاطر کا بہت لحاظ رکھتے تھے،
جیسا کہ آپ نے حضرت علی کے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کے پیغام پر اس کا اظہار فرمایا،
اس طرح میں آپ کی دلجوئی اور طیب خاطر چاہتا ہوں کہ آپ کو اس تلوار کے سلسلہ میں کسی پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑے،
اس پریشانی کو میں برداشت کروں،
اس لیے مجھے دے دیں،
میں آپ کی خاطر اس کی حفاظت کروں گا۔
(3)
ذكر صهرا له من عبد شمس:
اس سے مراد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس ہیں،
اس نے کافر ہونے کے دور میں بھی حضرت زینب کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور اس سلسلہ میں ہر قسم کی لالچ کو ٹھکرا دیا اور پھر ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ آ جانے پر بھی کسی اور عورت سے شادی نہیں کی،
اسلام لانے کے بعد،
حضرت زینب ہی اسی کے ہاں گئیں۔
(4)
وعدني فاوفي لي:
جب جنگ بدر میں،
ابو العاص جو اس وقت کافر تھا،
قید میں آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ میں حضرت زینب کو آپ کے پاس بھیج دوں گا،
اس سلسلہ میں اس نے آپ سے سچا وعدہ کیا اور پھر اس کو پورا کیا،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو آپ کے پاس بھیج دیا اور یہ بھی ممکن ہے،
اس نے اور شادی نہ کرنے کا وعدہ کیا ہو۔
(5)
انی لست احرم حلالا ولا احل حراما:
حرام کو حلال ٹھہرانا اور حلال کو حرام ٹھہرانا،
میرے بس میں نہیں ہے،
حلت و حرمت اللہ کے ہاتھ میں ہے،
اس لیے میں نہیں کہتا کہ حضرت علی کے لیے اور شادی کرنا حرام ہے،
لیکن بات یہ ہے،
لا تجتمع بنت رسول اللہ بنت عدو اللہ مکانا واحداً،
اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی یکجا اکٹھی نہیں ہو سکتیں،
کیونکہ سوکنیں طبعی طور پر ایک دوسرے سے الرجک ہوتی ہیں،
اور ایک دوسری سے حسد و کینہ رکھتی ہیں،
اس لیے یہ رشتہ دونوں کے خاوندوں کو متاثر کرتا ہے،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضی اور تکلیف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت و تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں اور کسی مسلمان کے لیے اس کا سبب بننا مناسب نہیں ہے،
اس لیے اس شادی کی اجازت نہیں ہو سکتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6309   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3729  
3729. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3729]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوالعاص مقسم بن الربیع ہیں۔
آنحضرت ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ ان کے نکاح میں تھیں، بدر کے دن اسلام قبول کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
آنحضرت ﷺ سے سچی محبت رکھتے تھے، جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔
ان کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ خود آنحضرت ﷺ نے ان کی وفاداری کی تعریف فرمائی۔
جب حضرت ابوالعاص ؓ کا یہ حال ہے تو پھر علی ؓ سے تعجب ہے کہ وہ اپنا وعدہ کیوں پورا نہ کریں۔
ہوا یہ تھا کہ ابوالعاص ؓ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح ہوتے وقت یہ شرط کرلی تھی کہ ان کے رہنے تک میں دوسری بیوی نہ کروں گا، اس شرط کو ابوالعاص نے پورا کیا۔
شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہو۔
لیکن جویریہ کو پیام دیتے وقت وہ بھول گئے تھے۔
جب آنحضرت ﷺ نے عتاب کا یہ خطبہ پڑھا تو ان کو اپنی شرط یا د آگئی اور وہ اس ارادے سے باز آئے۔
بعض نے کہا کہ حضرت علی ؓ سے ایسی کوئی شرط نہیں ہوئی تھی لیکن حضرت فاطمہ ؓ بڑے رنجوں میں گرفتار تھیں۔
والدہ گزرگئیں، تینوں بہنیں گزرگئیں، اکیلی باقی رہ گئی تھیں، اب سوکن آنے سے وہ پریشان ہوکر اندیشہ تھا کہ ان کی جان کو نقصان پہنچے۔
اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ پر عتاب فرمایا تھا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3729   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5230  
5230. سیدنا مسور بن مخرمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر کھڑے یہ فرماتے ہوئے سنا: ہشام بن مغیرہ کے خاندان نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے کردیں۔ میں اجازت نہیں دیتا، پھر اجازت نہیں دیتا، ایک بار بھی اجازت نہیں دیتا۔ ہاں، اگر ابن ابی طالب کا پروگرام ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کر لے۔ فاطمہ‬ ؓ ت‬و میرا جگر گوشہ ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی کرتی ہے اور جو اس لے لیے تکلیف دہ ہے وہ میرے لیے بھی باعث اذیت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5230]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے کہ میں حرام کو حلال نہیں کرتا نہ حلال کو حرام کرتا ہوں لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے تحت مل کر نہیں رہ سکتی اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فورا وہ پیغام رد کر دیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5230   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3110  
3110. حضرت علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت ہے کہ جب ہم حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسور بن مخرمہ ؓ ملے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم دیں؟ میں نے ان سے کہا: مجھے کوئی حاجت نہیں۔ حضرت مسور ؓنے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرمائیں گے! مجھے خطرہ ہے مبادا کچھ لوگ آپ سے بہ زور چھین لیں؟ اللہ کی قسم! اگر وہ آپ مجھے دے دیں گے تو جب تک میری جان باقی ہے اسے کوئی شخص چھین نہیں سکے گا۔ (پھر انہوں نے ایک قصہ بیان کیا کہ) حضرت علی ؓنے سیدہ فاطمہ ؓ کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی کو پیغام نکاح دے دیا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے، میں ان دنوں بالغ تھا، آپ نے فرمایا: فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، مجھے اندیشہ ہے مبادا وہ اپنے دین کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3110]
حدیث حاشیہ:
وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا سے مراد یہ کہ علی ؓدوسری بیوی لائیں اور حضرت فاطمہ ؓسوکن پنے کی عداوت سے جوہر عورت کے دل میں ہوتی ہے‘ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔
مثلاً خاوند کو ستائیں‘ ان کی نافرمانی کریں یا سوکن کو برا بھلا کہہ بیٹھیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ علی ؓ کا نکاح ثانی یوں ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرلیں۔
جب حضرت علی ؓنے آپ کا یہ ارشاد سنا تو فوراً یہ ارادہ ترک کیا اور جب تک حضرت فاطمہ ؓ زندہ رہیں انہوں نے دوسری بیوی نہیں کی۔
قسطلانی ؒنے کہا آپ کے ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ پیغمبر کی بیٹی اور عدواللہ کی بیٹی میں جمع کرنا حرام ہے۔
مسوربن مخرمہ ؓنے یہ قصہ اس لئے بیان کیا کہ حضرت زین العابدین کی فضیلت معلوم ہو کہ وہ کس کے پوتے ہیں۔
حضرت فاطمہ زہرا ؓکے‘ جن کے لئے آنحضرت ﷺنے حضرت علی ؓ پر عتاب فرمایا اور جن کو آنحضرت ﷺ نے اپنے بدن کا ایک ٹکڑا قرار دیا۔
اس سے حضرت فاطمہ ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔
وفي الفتح قال الکرماني مناسبة ذکر المسورلقصة خطبة بنت أبي جهل عند طلبه للسیف من جھة أن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کا ن یحترز عما یوجب وقوع التکدیر بین الأقرباء فکذالك ینبغي أن تعطیني السیف حتیٰ لا یحصل بینك وبین أقربائك کدورة بسببه یعنی مسور رضی اللہ عنہ نے بنت ابوجہل کی منگنی کا قصہ اس لئے بیان کیا جبکہ انہوں نے حضرت زین العابدین سے تلوار کا سوال کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزوں سے پرہیز فرمایا کرتے تھے جن سے اقراباء میں باہمی کدورت پیداہو۔
پس مناسب ہے کہ آپ یہ تلوار مجھ کو دے دیں تاکہ آپ کے اقرباء میں اس کی وجہ سے آپ سے کدورت نہ پیداہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3110   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3767  
3767. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3767]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے باب علامات النبوۃ میں دوسری سند سے وصل کیا ہے، حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث قوی دلیل ہے اس بات پر کہ حضرت فاطمہ ؓ اپنے زمانہ والی اور اپنے بعد والی سب عورتوں سے افضل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3767   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3110  
3110. حضرت علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت ہے کہ جب ہم حضرت حسین ؓ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ طیبہ آئے تو انھیں مسور بن مخرمہ ؓ ملے اور کہا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم دیں؟ میں نے ان سے کہا: مجھے کوئی حاجت نہیں۔ حضرت مسور ؓنے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی تلوار عنایت فرمائیں گے! مجھے خطرہ ہے مبادا کچھ لوگ آپ سے بہ زور چھین لیں؟ اللہ کی قسم! اگر وہ آپ مجھے دے دیں گے تو جب تک میری جان باقی ہے اسے کوئی شخص چھین نہیں سکے گا۔ (پھر انہوں نے ایک قصہ بیان کیا کہ) حضرت علی ؓنے سیدہ فاطمہ ؓ کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی کو پیغام نکاح دے دیا تھا تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے، میں ان دنوں بالغ تھا، آپ نے فرمایا: فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے، مجھے اندیشہ ہے مبادا وہ اپنے دین کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3110]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ کا نکاح ثانی اس طرح ممکن ہے کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرلے۔
(صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5230)
اس کے بعد حضرت علی ؓنے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ ترک کردیا۔
(صحیح البخاري، الفضائل، حدیث: 3729)

رسول اللہ ﷺنے ابوجہل کی بیٹی اور اپنی لخت جگت دونوں کو نہ جمع کرنے کی دوعلتیں بیان کی ہیں:
۔
ایسا کرنے سے مجھے تکلیف ہوگی جوشرعاً حرام ہے۔
۔
ایسا کرنے سے میری بیٹی کا دین خراب ہوگا۔
اس آخری علت کامفہوم یہ ہے کہ سوتن کی طرف سے اسے جو تکلیف ہوگی وہ اس کے دین کو بگاڑ دے گی اور وہ اس پر صبر نہیں کرسکے گی۔

حضرت مسور ؓنے یہ قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ رسول اللھ ﷺنے اپنی بیٹی کی دلجوئی فرمائی اور اس طرح میں بھی آپ کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں۔
اس بنا پر یہ تلوارمجھے دے دو، میں اس کی حفاظت کروں گا۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
یہ وہی ذوالفقار نامی تلوار تھی جو رسول اللہ ﷺ کو غزوہ بدر میں بطور غنیمت ملی تھی اور غزوہ احد کے موقع پر اس کے متعلق ایک خواب بھی دیکھا تھا۔
(جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1561و فتح الباري: 257/6)
وہ تلوار رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت علی ؓکو دے دی، پھر وہ ان کی اولاد کی طرف منتقل ہوگئی۔
اس طرح اس میں وراثت وغیرہ کا سلسلہ جاری نہیں ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3110   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3729  
3729. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب حضرت علی ؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ ؓ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا: آپ کی برادری کا خیال ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی ؓ ابوجہل کی دختر سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے، میں اس وقت سن رہاتھا جب آپ نے خطبے کے بعد فرمایا: أمابعد!میں نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بیٹی کا نکاح کیا تواس نے مجھ سے جو بات کی اسے سچا کردکھایا۔ بے شک فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں نہیں رہ سکتیں۔ یہ سنتے ہی حضرت علی ؓ نے اس منگنی کو ترک کردیا۔ محمد بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3729]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے ایک داماد حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ ہیں جو آپ کی بیٹی حضرت زینب ؓ کے خاوند تھے اس حدیث میں ان کا ذکر خیر ہے۔
مشرکین مکہ نے حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ پر دباؤ ڈالا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دیں۔
تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔
رسول اللہ ﷺ اس بنا پر قرابت دامادی کی تعریف کر رہے ہیں نیز رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی کے نکاح کے وقت حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے یہ شرط کی تھی کہ ان کی موجودگی میں کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کریں گے انھوں نے اس شرط کو پورا کیا، شاید حضرت علی ؓ نے بھی یہی شرط کی ہومگر آپ بھول گئے اور عموم جواز پر نظر رکھتے ہوئے ابو جہل کی بیٹی سے منگنی کی۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے خطبہ دیا تو انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اسی طرح حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رہا کرتے ہوئے کہا تھا:
میری بیٹی زینب کو مدینہ طیبہ بھیج دینا۔
تو انھوں نے اس وعدے کے مطابق انھیں بھیج دیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف کی ہے۔

واضح رہے کہ وہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوگئے تھے پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب ؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔
حضرت امامہ ؓ ان کی بیٹی تھیں جنھیں رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں اپنے کندھوں پر اٹھالیا کرتے تھے۔
حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ یمامہ کی لڑائی میں ذوالحجہ 12ھ کو شہید ہوئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3729   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3767  
3767. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3767]
حدیث حاشیہ:

حضرت فاطمہ ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔
پندرہ سال کی عمر میں حضرت علی ؓ سے ان کی شادی ہوئی۔

اس حدیث میں حضرت فاطمہ کی بہت بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے جسم اطہر کا حصہ قراردیا اور ان کی ناراضی کو اپنی ناراضی کہا ہے۔
اس سے علامہ سہیلی نے استنباط کیا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کو بُرا بھلا کہنا کفر ہے کیونکہ بُرا بھلا کہنے والے پر سیدہ ناراض ہوں گی اور آپ کو ناراض کرنا گویا رسول اللہ ﷺ کو ناراض کرنا ہے۔
اس طرح آپ کی ناراضی کفر ہے،لہذا فاطمہ ؓ کو ناراض کرنا بھی کفر ہے۔
لیکن یہ استدلال محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 133/7)

ایک روایت میں ہے کہ خواتین جنت میں افضل حضرت خدیجہ ؓ اور سیدہ فاطمہ ؓ بنت محمد ﷺ ہیں۔
(مسند أحمد: 293/1، رقم: 2668)
ایک اور حدیث میں ہے کہ خواتین جنت کی سردار سید ہ فاطمہ ؓ ہوں گی۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3624)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ تمام عورتوں سے افضل ہیں۔
(فتح الباري: 175/7)
ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس سلسلے میں توقف کیاجائے،ہر ایک کسی نہ کسی سلسلے میں وجہ فضیلت حاصل ہے اگرچہ جگر گوشہ ہونے میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہمیں ان کی میعت ورفاقت نصیب کرے اورجنت الفردوس میں ہم سب کو اکھٹا کردے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3767   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5230  
5230. سیدنا مسور بن مخرمہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منبر پر کھڑے یہ فرماتے ہوئے سنا: ہشام بن مغیرہ کے خاندان نے مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے کردیں۔ میں اجازت نہیں دیتا، پھر اجازت نہیں دیتا، ایک بار بھی اجازت نہیں دیتا۔ ہاں، اگر ابن ابی طالب کا پروگرام ہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے نکاح کر لے۔ فاطمہ‬ ؓ ت‬و میرا جگر گوشہ ہے جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی کرتی ہے اور جو اس لے لیے تکلیف دہ ہے وہ میرے لیے بھی باعث اذیت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5230]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابو جہل کی بیٹی کے نکاح کی بات چلی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا:
لوگوں کے بقول آپ اپنی بیٹیوں کی خاطر کسی کی ناراضی مول نہیں لیتے ہیں، دیکھیں میرے شوہر حضرت علی، ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔
اس وقت آپ نے فرمایا:
میں فاطمہ کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔
اللہ کی قسم!اللہ کے رسول اللہ بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی کے ہاں جمع نہیں ہوسکتیں۔
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ارادہ ترک کر دیا۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ و سلم، حدیث: 3729)
ایک دوسری روایت میں ہے:
میں فاطمہ کو اس کے دین کے متعلق آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا اور نہ میں حلال ہی کو حرام اور حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ کے رسول کی بیٹی کبھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3110) (2)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عار باپ میں ہو وہ اولاد میں بھی باقی رہتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اللہ کے دشمن کی بیٹی قرار دیا، اسی طرح آباؤ اجداد کی شرافت اولاد کے لیے باعث افتخار ہوتی ہے۔
(3)
بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح جائز تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت ہو۔
والله اعلم (فتح الباري: 408/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5230