الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
7. بَابُ مَنْ قَالَ لاِمْرَأَتِهِ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ:
7. باب: جس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو مجھ پر حرام ہے۔
حدیث نمبر: Q5264-2
أَوِ الْخَلِيَّةُ أَوِ الْبَرِيَّةُ أَوْ مَا عُنِيَ بِهِ الطَّلاَقُ، فَهُوَ عَلَى نِيَّتِهِ، وَقَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 49، وَقَالَ: وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا سورة الأحزاب آية 28، وَقَالَ: فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 229، وَقَالَ: أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ سورة الطلاق آية 2، وَقَالَتْ عَائِشَةُ:" قَدْ عَلِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَبَوَيَّ لَمْ يَكُونَا يَأْمُرَانِي بِفِرَاقِهِ".
‏‏‏‏ یا میں نے رخصت کیا، یا یوں کہے کہ اب تو خالی ہے یا الگ ہے کہ آؤ میں تم کو اچھی طرح سے رخصت کر دوں۔ اسی طرح سورۃ البقرہ میں فرمایا اسی طرح کا کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس سے طلاق بھی مراد لی جا سکتی ہے تو اس کی نیت کے مطابق طلاق ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہے «وسرحوهن سراحا جميلا‏» انہیں خوبی کے ساتھ رخصت کر دو اور اسی سورت میں فرمایا «فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان‏ا‏» اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہے قاعدہ کے مطابق یا خوش اخلاقی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) «فراق» کا مشورہ دے ہی نہیں سکتے (یہاں «فراق» سے طلاق مراد ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5264-2]
حدیث نمبر: Q5264
وَقَالَ الْحَسَنُ: نِيَّتُهُ، وَقَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ: إِذَا طَلَّقَ ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ فَسَمَّوْهُ حَرَامًا بِالطَّلَاقِ وَالْفِرَاقِ وَلَيْسَ هَذَا كَالَّذِي يُحَرِّمُ الطَّعَامَ لِأَنَّهُ لَا يُقَالُ لِطَعَامِ الْحِلِّ حَرَامٌ، وَيُقَالُ لِلْمُطَلَّقَةِ حَرَامٌ، وَقَالَ: فِي الطَّلَاقِ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
‏‏‏‏ امام حسن بصری نے کہا کہ اس صورت میں فتویٰ اس کی نیت پر ہو گا اور اہل علم نے یوں کہا ہے کہ جب کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی۔ یہاں طلاق اور «فراق» کے الفاظ کے ذریعہ حرمت ثابت کی اور عورت کو اپنے اوپر حرام کرنا کھانے کو حرام کی طرح نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حلال کھانے کو حرام نہیں کہہ سکتے اور طلاق والی عورت کو حرام کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تین طلاق والی عورت کے لیے یہ فرمایا کہ وہ اگلے خاوند کے لیے حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: Q5264]
حدیث نمبر: 5264
وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ:" كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا، قَالَ: لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا، فَإِنْ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، حَرُمَتْ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ".
اور لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر ایسے شخص کا مسئلہ پوچھا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوتی، تو وہ کہتے اگر تو ایک بار یا دو بار طلاق دیتا تو رجوع کر سکتا تھا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ایسا ہی حکم دیا تھا لیکن جب تو نے تین طلاق دے دی تو وہ عورت اب تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا اور کسی شخص سے نکاح کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ/حدیث: 5264]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5264 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5264  
حدیث حاشیہ:
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے فتویٰ کی روایت کو عبدالرزاق نے وصل کیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کی نیت اگر طلاق کی ہوگی تو طلاق ہو جا ئے گی۔
اگر ظہار کی نیت ہوگی تو ظہار ہو جائے گا۔
حنفیہ کہتے ہیں اگر ایک طلاق یا دو طلاق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن پڑے گی اگر طلاق کی نیت نہ کرے تو وہ ایلاء ہوگا۔
امام ابو ثور اور اوزاعی نے کہا ایسے کہنے سے قسم کا کفارہ دے۔
بعضو ں نے کہا ظہار کا کفارہ دے، مالکیہ کہتے ہیں ایسا کہنے سے تین طلاق پڑ جائیں گی۔
بعض کہتے ہیں کہ ایسا کہنا لغو ہے اور اس میں کچھ لازم نہ آئے گا۔
غرض اس مسئلہ میں قرطبی نے سلف کے اٹھارہ قول نقل کئے ہیں تو رخصت کے لفظ سے طلاق مراد نہیں رکھی۔
مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ صریح طلاق وہی ہے جس میں طلاق کا لفظ ہو یا اس کا مشتق مثلاً أنت مطلقة یا طلقتك یا أنت طالق یا علیك الطلاق باقی الفاظ جیسے فراق، تسریح، خلیہ، بریہ وغیرہ ان سے طلاق جب ہی پڑے گی کہ خاوند کی نیت طلاق کی ہو کیونکہ ان الفاظ کے معنی سوا طلاق کے اور بھی آئے ہیں جیسے سورہ احزاب کی اس آیت میں (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا)
(الأحزاب: 49)
یہاں تسریح سے رخصت کرنا مراد ہے نہ کہ طلاق دینا کیونکہ طلاق کا ذکر تو پہلے ہو چکا ہے اور غیر مدخولہ عورت ایک ہی طلاق سے بائن ہو جاتی ہے، دوسری طلاق کا محل کہاں ہے۔
خلاصہ یہ ہے آیت میں تسریح اور فارقوھن سے طلاق مراد نہیں ہے کیونکہ طلاق کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5264   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5264  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں اہل کا قول ذکر کیا تھا کہ بیوی کا حرام ہونا اور کھانے کا حرام ہونا دو الگ الگ مسئلے ہیں۔
کھانے کو حرام کہنا تحریم مباح کی قسم ہے جس کی اجازت نہیں ہے لیکن بیوی کو طلاق کی وجہ سے حرام کہا جاسکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
جب کسی نے بیوی کو تین طلاقیں دےدیں تو وہ حرام ہو جائے گی، یعنی اس حدیث میں بیوی پر حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔
بہرحال تحریم حلال اپنے اطلاق پر نہیں ہے۔
بیوی کے لیے تو جائز ہے لیکن کھانے کے لیے جائز نہیں ہے۔
(2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جب کوئی اپنی بیوی کو اپنے آپ پر حرام کرلیتا ہے تو یہ اس کی نیت پر موقوف ہے کہ اس سے اس کی مراد طلاق ہے یا قسم۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے بعد حسن بصری کے قول کا حوالہ دیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ عادت ہے کہ اختلافی مسائل میں مختلف اہل علم کے اقوال ذکر کر کے اپنا رجحان بیان کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 463/9)
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5264