الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب النِّكَاحِ
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
103. بَابُ مَنْ طَافَ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ:
103. باب: مرد اپنی سب بیویوں سے صحبت کر کے آخر میں ایک غسل کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 5215
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ،" أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعُ نِسْوَةٍ".
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں نو بیویاں تھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5215]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييطوف على نسائه في الليلة الواحدة وله يومئذ تسع نسوة
   صحيح البخارييطوف على نسائه في ليلة واحدة وله تسع نسوة
   صحيح البخارييطوف على نسائه في الليلة الواحدة وله يومئذ تسع نسوة
   صحيح مسلميطوف على نسائه بغسل واحد
   جامع الترمذييطوف على نسائه في غسل واحد
   سنن أبي داودطاف ذات يوم على نسائه في غسل واحد
   سنن النسائى الصغرىيطوف على نسائه في الليلة الواحدة وله يومئذ تسع نسوة
   سنن النسائى الصغرىيطوف على نسائه في غسل واحد
   سنن النسائى الصغرىطاف على نسائه في ليلة بغسل واحد
   سنن ابن ماجهاغتسل من جميع نسائه في ليلة
   سنن ابن ماجهيطوف على نسائه في غسل واحد
   بلوغ المراميطوف على نسائه بغسل واحد
   المعجم الصغير للطبراني يطوف على نسائه بغسل واحد

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5215 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5215  
حدیث حاشیہ:
یہ حج کا واقعہ ہے احرام سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات کے ساتھ رات میں وقت گزارا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5215   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5215  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں گیارہ بیویوں کا ذکر ہے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 268)
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نوبیویاں اور دو باندیاں تھیں۔
راوئ حدیث قتادہ کہتے ہیں:
میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی طاقت تھی؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ آپ کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 268) (2)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ اس قدر ریاضت کہ کئی کئی دن بھوک سے گزر جاتے کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ آپ روزوں میں وصال کرتے، بعض اوقات بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھنے کی نوبت بھی آ جاتی، اس کے باوجود آپ میں اس قدر مردانگی قوت تھی۔
اتنی قوت ہوتے ہوئے صرف گیارہ عورتوں پر اکتفا کرنا آپ کے کمال تقوی پر دلالت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر احرام سے پہلے آپ نے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کے ساتھ ایک رات میں وقت گزاراتھا۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 267)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5215   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 218  
´انسان اپنی بیوی کے پاس دوسری بار جانا چاہے تو. . .`
«. . . عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَافَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ . . .»
. . . انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ایک ہی غسل سے اپنی تمام بیویوں کے پاس گئے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 218]
فوائد و مسائل:
➊ انسان اپنی بیوی کے پاس دوسری بار جانا چاہے یا دیگر بیویوں کے پاس جانا چاہتا ہو تو اس دوران میں غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ صرف وضو کافی ہے، جس کا اس روایت میں بوجہ اختصار ذکر نہیں ہوا۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ زوجات میں باری کا اہتمام فرماتے تھے، مگر بعض اوقات سفر وغیرہ سے واپسی پر باقاعدہ باری شروع کرنے سے پہلے ایک بار سب کے پاس چلے جاتے تھے یا کوئی اور وجہ بھی ہوتی ہو گی۔
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی قوت دی گئی تھی۔ [صحيح بخاري حديث: 268]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 218   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 284  
´جنبی گھر سے باہر نکل سکتا اور بازار وغیرہ جا سکتا ہے`
«. . . أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، " أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعُ نِسْوَةٍ " . . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی رات میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج میں نو بیویاں تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْجُنُبُ يَخْرُجُ وَيَمْشِي فِي السُّوقِ وَغَيْرِهِ:: 284]
تشریح:
اس سے جنبی کا گھر سے باہر نکلنا یوں ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بی بی سے صحبت کر کے گھر سے باہر دوسری بیوی کے گھر تشریف لے جاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 284   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5068  
5068. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس جاتے تھے جبکہ آپ کی نو بیویاں تھیں۔ (امام بخاری ؓ نے کہا) مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے ان سے سیدنا انس ؓ نے بیان کیا۔ انہوں نے نبی ﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5068]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو نو بیویاں آخری زندگی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں (1)
حضرت حفصہ (2)
حضرت ام حبیبہ (3)
حضرت سودہ (4)
حضرت ام سلمہ (5)
حضرت صفیہ (6)
حضرت میمونہ (7)
حضرت ز ینب (8)
حضرت جویریہ (9)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھن۔
ان میں سے آٹھ کے لئے باری مقرر کی تھی مگر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے بخوشی اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دی تھی۔
اس لئے ان کی باری ساقط ہو گئی تھی نو بیویاں ہونے کے باوجود آپ کے عادلانہ رویہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5068   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 284  
284. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ بعض اوقات ایک رات میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ہو آتے تھے اور اس وقت ان کی تعداد نو تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:284]
حدیث حاشیہ:
اس سے جنبی کا گھر سے باہر نکلنا یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ ایک بی بی سے صحبت کرکے گھر سے باہر دوسری بیوی کے گھر تشریف لے جاتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 284   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 284  
´ایک رات میں زیادہ بیویوں سے ہم بستری کرنا`
«. . . أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، " أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي اللَّيْلَةِ الْوَاحِدَةِ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعُ نِسْوَةٍ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی رات میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج میں نو بیویاں تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْجُنُبُ يَخْرُجُ وَيَمْشِي فِي السُّوقِ وَغَيْرِهِ: 284]
تخريج الحديث:
[179۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 34 باب الجنب يخرج ويمشي فى السوق وغيره، مسلم 309، أبوداود 218]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ حالت جنابت میں سونا جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ سونے سے پہلے وضو کر لیا جائے، اسی طرح ایک روایت میں سونے کے ساتھ کھانے کا بھی ذکر ہے۔ [صحيح: السلسلة الصحيحة 390،]
یعنی جیسے سونے سے پہلے وضو کرنا بہتر ہے اسی طرح اگر جنبی کچھ کھانا چاہے تو بہتر ہے کہ پہلے وضو کر لے۔ علاوہ ازیں ایک رات میں زیادہ بیویوں سے یا ایک ہی بیوی سے زیادہ مرتبہ ہم بستری کرنا بھی درست ہے، البتہ اس صورت میں مناسب یہ ہے کہ دوبارہ ہم بستری سے پہلے وضو کر لیا جائے جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ جب تم میں سے کوئی دوبارہ ہم بستری کا ارادہ کرے تو وضو کر لے کیونکہ یہ زیادہ نشاط و چستی کا باعث ہے۔ [مسلم 308، حاكم 152/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 179   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 264  
´کئی عورتوں سے جماع کرنے بعد آخر میں غسل کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ایک ہی غسل سے اپنی بیویوں کے پاس گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 264]
264۔ اردو حاشیہ:
➊ ایک سے زائد بیویوں کے پاس جانے کے بعد آخر میں صرف ایک ہی غسل کافی ہے، البتہ ہر ایک کے درمیان میں وضو کرنا مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد میں بیک وقت نو بیویاں رہی ہیں۔ آپ نے ان سب بیویوں سے جماع کسی مشترکہ رات میں کیا ہو گا۔ حدیث سے مراد یہی ہے۔ عموماً تو باری مقرر ہوتی تھی۔ اگرچہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باری کی تقسیم سے مستثنیٰ تھے، یعنی یہ آپ پر فرض نہ تھی لیکن اس کا اہتمام ضرور فرمایا کرتے تھے۔ ممکن ہے، اسی رخصت کی وجہ سے ایک رات سب کے پاس گئے ہوں، جبکہ بعض کا کہنا ہے: ہو سکتا ہے کہ نئی باری شروع ہونے سے پہلے ایک رات مشترک ہو یا سفر وغیرہ کے بعد ایسا ہو۔ بہرحال آپ کے لیے اس کی شرعاً اجازت تھی۔ (دیکھیے: الأحزاب 51: 33)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 264   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3200  
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات کے نکاح کا بیان اور اس چیز کا بیان جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے جائز قرار دیا اور اپنی مخلوق کو منع کیا تاکہ ساری مخلوق پر آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر ہو سکے۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ایک ہی رات میں جایا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3200]
اردو حاشہ:
اس بات میں اختلاف ہے کہ رسول اللہﷺ پر بیویوں میں باری مقرر کرنا لازم تھا یا نہیں؟ مگر اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ باری مقرر فرماتے تھے، لہٰذا ممکن ہے کہ آپ سفر وغیرہ سے واپسی پر باری شروع کرنے سے پہلے ایک رات سب کے لیے مشترکہ رکھتے ہوں یا ایک دفعہ باری مکمل ہونے کے بعد دوسری باری شروع ہونے سے پہلے ایک رات مشترکہ رکھتے ہوں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3200   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 880  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی غسل سے ساری بیویوں کے پاس چلے جایا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 880»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الغسل، باب الجنب يخرج ويمشي في السوق وغيره، حديث:284، ومسلم، الحيض، باب جواز نوم الجنب......،حديث:309.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مباشرت کے فوراً بعد غسل جنابت ضروری اور واجب نہیں۔
2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کی بیویوں میں باری کی تقسیم واجب نہ تھی‘ اگر واجب ہوتی تو آپ ایک ہی رات میں تمام ازواج مطہرات کے پاس نہ جاتے‘ جبکہ جمہور اسے واجب قرار دیتے ہیں اور اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ کام آپ نے اجازت لے کر کیا تھا یا سب کی باری ختم ہونے پر کیا تھا یا یہ عمل تقسیم واجب ہونے سے پہلے کا ہے۔
(سبل السلام)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 880   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث588  
´ساری بیویوں سے ہمبستری کے بعد ایک ہی غسل کرے تو کیسا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری بیویوں کے پاس ہو آنے کے بعد آخر میں ایک غسل کر لیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 588]
اردو حاشہ:
(1)
جس شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں وہ سب کی باری مکمل ہونے کے بعد ایک ہی رات میں سب بیویوں سے مقاربت کرسکتا ہے۔

(2)
اگر ایک سے زیادہ بیویوں سے ایک ہی رات میں مقاربت کی جائے تو ہر مقاربت کے بعد الگ الگ غسل کرنا ضروری نہیں، آخر میں ایک ہی غسل کافی ہے۔

(3)
اگر ہر بیوی سے مقاربت کے بعد غسل کرے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ اگلے باب میں مذکور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 588   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث589  
´ساری بیویوں سے ہمبستری کے بعد ایک ہی غسل کرے تو کیسا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے رات میں اپنی ساری بیویوں سے صحبت کے بعد (ایک ہی) غسل کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 589]
اردو حاشہ:
 یہ روایت سنداً ضعیف ہے اور متناً ومعناً صحیح ہے جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 589   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 140  
´کئی بیویوں سے صحبت کرنے کے بعد آخر میں غسل کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ایک ہی غسل میں سبھی بیویوں کا چکر لگا لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 140]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی سب سے صحبت کر کے اخیر میں ایک غسل کرتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 140   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 708  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی تمام بیویوں کے پاس جاتے اور آخر میں ایک غسل فرما لیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:708]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جنابت کی صورت میں فوری طور پر غسل کرنا ضروری نہیں ہے کھانا،
پینا،
سونا اورتعلقات قائم کرنا غسل سے پہلے درست ہے،
ائمہ اربعہ اور جمہور کے نزدیک امور مذکورہ سے پہلے وضو کر لینا بہتر ہے اور وضو کے بغیر خلاف ادب تہذیب یعنی مکروہ تنزیہی ہے لیکن ابن حبیب مالکی اور داؤد ظاہری کے نزدیک وضو کرنا لازم ہے۔

ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں اگر انسان کسی رات ایک سے زائد بیویوں کے پاس یکے بعد دیگرے جائے تو درمیان میں نہانا ضروری نہیں ہے اسی طرح ایک بیوی کے پاس دوبارہ جانے کے لیے نہانا ضروری نہیں ہے۔
درمیان میں وضو کر لینا بہتر ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 708   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:284  
284. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ بعض اوقات ایک رات میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ہو آتے تھے اور اس وقت ان کی تعداد نو تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:284]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک جنبی آدمی غسل کیے بغیر ہرکام میں مصروف ہو سکتا ہے۔
حضرت عطاء کے قول کو بطوراستدلال پیش کیا ہے لیکن کچھ حضرات نے اس سلسلے میں حضرت عطاء کی مخالفت کی ہے، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حسن بصری کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ سب کاموں سے پہلے وضو کرنے کو مستحب قرار دیتے تھے۔
حدیث انس سے حضرت عطاء کے موقف کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے۔
(فتح الباري: 508/1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ وغیرہ وضو یا غسل سے پہلے بحالت جنابت دوسرے کاموں میں مصروف ہونے کو پسند نہ کرتے تھے۔
جبکہ حدیث انس سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جنابت سے قبل جنسی آدمی کو چلنے پھرنے کی ممانعت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ایک بیوی کے پاس سے دوسری بیوی کے پاس بحالت جنابت تشریف لے گئے، پھر ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے گھر مسجد کے چاروں طرف واقع تھے۔
جب ایک حجرے سے دوسرے حجرے تک جانے کی اجازت ہے تو محلے میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت ہوگی، پھر محلے میں چلنا اور بازار میں جانا دونوں برابر ہیں۔
جب آمد و رفت کاجواز ہے تو کھانے پینے میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے۔
اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔
دوسری روایت میں تو یہ بات اورواضح ہوگئی، کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی یہ روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان سے مدینے کے کسی راستے میں ملے جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس وقت حالت جنابت میں تھے۔
اس سے جنابت کی حالت میں بازار کی آمد و رفت ثابت ہوئی۔

علامہ عینی ىؒ لکھتے ہیں کہ عام فقہاء کا یہ موقف ہے کہ جنبی آدمی بازار میں جا سکتا ہے اور آمدورفت رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
تاہم مصنف ابن ابی شیبہ (113۔
112/1)

میں ہے کہ حضرت علی ؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت ابن عمر ؓ، حضرت عمر ؓ، حضرت شداد بن اوس ؓ پھر حضرت سعید بن مسیب ؒ، مجاہد ؒ، ابن سیرین ؒ، زہری ؒ، محمد بن علی ؒ، اور امام نخعی ؒ جنابت کے بعد وضو سے پہلے نہ کچھ کھاتے اور نہ گھر ہی سے باہر نکلتے۔
اسی طرح امام بیہقی ؒ نے کتاب الطہارت میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ، عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عطا ؒ اور حسن بصری ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ حضرات بھی وضو کے بغیر مشاغل میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔
(عمدة القاري: 74/3)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطاء کا قول بیان جواز کے لیے پیش کیا ہے۔
اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جنابت کے بعد وضو کر لیا جائے۔
رسول اللہ ﷺ بھی نقل وحرکت کے علاوہ کوئی فعل بحالت جنابت ثابت نہیں۔
اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بڑی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں:
جسے رات کو جنابت لاحق ہو، اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ وضو کرو اور شرم گاہ کو دھو لو اور پھر سوجاؤ۔
میں کہتا ہوں کہ جنابت چونکہ فرشتوں کی صفات و طبائع کے منافی ہے اور وہ ہروقت انسان کے ساتھ رہتے ہیں، اس لیے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ بحالت جنابت یوں ہی آزادی و بے پروائی سے اپنی ضروریات، سونے، کھانے پینے میں مصروف نہ ہو۔
اگرطہارت کبریٰ (غسل)
نہ کرسکے تو کم از کم طہارت صغریٰ (وضو)
ہی کرلے، کیونکہ فی الجملہ طہارت کا حصول دونوں سے ہوجاتا ہے، اگرچہ شارع نے دونوں کو، جداجدا احداث پر تقسیم کردیا ہے۔
(حجة اللہ البالغة: 557۔
558/1)

اس بنا پر بہتر ہے کہ جنبی آدمی کم از کم وضو کرلے۔
اگرچہ جواز کی حد تک وضو کے بغیر رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 284   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5068  
5068. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس جاتے تھے جبکہ آپ کی نو بیویاں تھیں۔ (امام بخاری ؓ نے کہا) مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے ان سے سیدنا انس ؓ نے بیان کیا۔ انہوں نے نبی ﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5068]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں نو (9)
ازواج مطہرات کے ذکر سے کثرت کو ثابت کیا ہے لیکن یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔
امت کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کو بیک وقت جمع کرنا جائز نہیں۔
ان کے ساتھ عدل و انصاف کی شرط لگائی گئی ہے، بصورت دیگر ایک پر اکتفا کیا جائے۔
(2)
جو نو بیویاں آخری زندگی تک آپ کے نکاح میں تھیں ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
٭ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت سودہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما٭حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت زینب رضی اللہ عنہما٭ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہما٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما۔
ان میں سے آٹھ کے لیے باری مقرر تھی، البتہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہما نے خوشی سے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو ہبہ کر دی تھی۔
نو بیویاں ہونے کے باوجود آپ کے عادلانہ رویے کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی بیوی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔
(3)
دور حاضر میں کچھ روشن خیال لوگ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کو مذموم فعل قرار دیتے ہیں۔
اس مغربی تخیل کی دو بنیادیں ہیں:
پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغربی معاشرے میں مستحسن فعل کہا جاتا ہے اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو تو کم ازکم، یعنی بچے دو ہی اچھے۔
کا مصداق ہو۔
وہ چاہتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو بلکہ اس ذمے داری کو اٹھانے کے بجائے بدکاری سے ہی کام چلتا رہے لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کےلیے ہر وقت تیار رہتا ہے مگر عورت کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔
اسے ہر ماہ ایام حیض میں اس فعل سے نفرت ہوتی ہے، پھر حمل کی صورت میں،اس کے بعد ایام رضاعت میں بھی وہ اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی، البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کے بعد اس کام پر آمادہ ہوجائے تو الگ بات ہے۔
بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے لیکن مرد اتنی مدت تک صبر نہیں کرسکتا۔
اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو نکاح کرے یا فحاشی کی طرف مائل ہو جائے۔
اسلام نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے۔
وہ اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ اسے جنسی خواہش مٹانے کی اجازت دیتا ہے۔
عقل کے اعتبار سے اس میں بالکل کوئی خرابی نہیں ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5068