ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ! کیا میری یہ اطلاع صحیح ہے کہ تم (روزانہ) دن میں روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو، روزے بھی رکھو اور بغیر روزے بھی رہو۔ رات میں عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔ کیونکہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5199]
قم ونم صم وأفطر لجسدك عليك حقا لعينك عليك حقا لزورك عليك حقا لزوجك عليك حقا من حسبك أن تصوم من كل شهر ثلاثة أيام فإن بكل حسنة عشر أمثالها فذلك الدهر كله صم من كل جمعة ثلاثة أيام صم صوم نبي الله داود صوم نبي الله داود نصف
لعينك حظا لنفسك حظا لأهلك حظا صم وأفطر صل ونم صم من كل عشرة أيام يوما ولك أجر تسعة صم صيام داود يصوم يوما ويفطر يوما لا يفر إذا لاقى لا صام من صام الأبد
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5199
حدیث حاشیہ: ابو جحیفہ عامری وفات نبوی کے وقت نا بالغ تھے۔ بعد میں انہوں نے کوفہ میں قیام کیا اور74ھ میں کوفہ ہی میں وفات پائی۔ ان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت ثابت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5199
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5199
حدیث حاشیہ: (1) بیوی کا صرف یہی حق نہیں کہ خاوند اس کے نان و نفقہ کا بندوبست کرے بلکہ وہ اس بات کا بھی پابند ہے کہ اس کی جنسی خواہش کو پورا کرے۔ (2) اس امر کے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنی بیوی سے مباشرت نہیں کرتا اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص بلا عذر شرعی ایسا کرتا ہے تو اسے جماع کا پابند کیا جائے، بصورت دیگر ان میں علیحدگی کرا دی جائے، بہرحال یہ معاملہ فریقین کی ہمت، چاہت اور فرصت پر موقوف ہے۔ اسے بالکل ہی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور نہ دن رات اس میں مصروف رہنے کی حماقت ہی کرنی چاہیے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5199
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 567
´نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے` سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے (گویا) روزہ نہیں رکھا۔“(بخاری و مسلم) اور مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ ہیں کہ ”نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا۔“[بلوغ المرام/حدیث: 567]
567 لغوی تشریح: «لَاصَامَ مَنْ صَامَ الَّابَدَ» اس سے ہمیشہ اور سال بھر روزہ رکھنا مراد ہے۔ اور ہمیشہ روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ طریقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے جس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ «لَاصَامَ وَلَا اَفْطَرَ» یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے والے کا نہ روزہ ہے اور نہ افطار ہے۔ روزہ نہ ہونے کا مفہوم تو یہی ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ ”اور نہ افطار کیا“ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہا اور روزے میں جن چیزوں سے رکا جاتا ہے، اس نے ان چیزوں سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو روزے دار سمجھتا رہا۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا ناجائز اور حرام ہے اور باقی سارا سال روزے رکھ کر صرف عیدین اور ایام تشریق کے روزے نہ رکھنے سے یہ کراہت رفع نہیں ہو جاتی۔ ٭
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 567
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2403
´مہینے میں دس دن کا روزہ اور اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ میں روزہ رکھتا ہوں اور مسلسل رکھتا ہوں، اور رات میں نماز تہجد پڑھتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا، یا آپ ان سے ملے تو آپ نے فرمایا: ”کیا مجھے خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم (ہمیشہ) روزہ رکھتے ہو، اور کبھی بغیر روزہ کے نہیں رہتے، اور رات میں تہجد کی نماز پڑھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2403]
اردو حاشہ: ”آپ نے مجھے بھلا بھیجا۔“ روایات میں مختلف الفاظ ہیں: کسی میں ہے کہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا، میں گیا۔ کسی میں ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائے۔ کسی میں ہے کہ مجھے میرے والد نبیﷺ کے پاس لے کر گئے۔ تطبیق یوں ممکن ہے کہ ان کے والد محترم کے کہنے پر رسول اللہﷺ نے انھیں ساتھ لانے کو کہا، نیز کسی اور کے ذریعے سے آنے کا پیغام بھی بھیج دیا، پھر باپ بیٹا دونوں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے مختصر سی بات کی، پھر ان کے گھر جا کر تفصیلی بات چیت کی کیونکہ علیحدگی میں کوئی جھجک نہیں ہوتی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2403
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2743
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبد اللہ بن عمرو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو، ایسا نہ کرو، کیونکہ تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے تیری آنکھوں کا تم پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حصہ ہے روزہ رکھوبھی اور روزہ افطار بھی کرو، ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو تو یہ صوم الدہر ہو جائیں گے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2743]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: دین اسلام چونکہ اعتدال اور میانہ روی کا دین ہے۔ اس لیے دین کے ساتھ دنیوی ضرورتوں کو نظر انداز نہیں کرتا، بلکہ دونوں کے حسین امتزاج کی دعوت دیتا ہے اپنے جسم وجان، اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیتا ہے اور انسان پر صرف اتنا بوجھ ڈالتا ہے۔ جس سے انسان کے دنیوی حقوق و فرائض متاثر نہ ہوں اور نہ اس کے جسم وجاں کو ضررونقصان یا ضرورت سے زائد مشقت وکلفت کا بار برداشت کرنا پڑے، حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق عبادت بہت بڑھا ہوا تھا، وہ ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر نفل پڑھتے جن میں پورا قرآن مجید ختم کرتے، باپ نے شکایت کی کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق نظر انداز کررہے ہیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ تم نے جو رویہ اختیار کیا ہے، یہ تمہارے جسم وجان کے لیے تباہی کا باعث بنے گا اور اہل وعیال اوردوسروں کے حقوق بھی متاثر ہوں گے، اس لیے اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرو آسان رویہ اختیار کرو، ایک ماہ میں تین روزے رکھو اور ایک ماہ میں قرآن مجید ختم کرو، یہ امت کے عام افراد کے اعتبار سے روحانی تربیت، تزکیہ نفس اور تقرب الٰہی کا بہترین نسخہ ہے۔ لیکن اپنے ظروف اور احوال اور جسم وجان، اہل وعیال اور دوست واحباب کے حقوق کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر اضافہ جائز ہے، اس لیے صوم الدہر کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جمہور امت کے نزدیک اگر صوم الدہر سے کس کا حق ضائع نہ ہو، باقی عبادات متاثر نہ ہوں اور روزہ رکھنے میں اپنی معیشت ومعاشرت میں خلل اور خرابی پیدا نہ ہو۔ انسان کے نفس کو ضررلاحق نہ ہوتو اس صورت میں جائز ہے بشرط یہ کہ عیدین اور ایام تشریق میں روزہ رکھے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسی صورت میں مستحب ہے اکثراحناف، احمد اور اسحاق کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے۔ ابن حزم اور بعض احناف کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے قاعدہ کلیہ یا عام ضابطہ بنانا، جس میں استثناء نہ ہو، ممکن نہیں ہے۔ اصل چیز تمام حقوق کی ادائیگی ہے، ہر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاہیے، اگر حقوق میں کوتاہی پیدا ہوتی ہے تو پھر یہ جائز نہیں، اگر حق واجب فوت ہو گا تو یہ مکروہ تحریمی ہوں گے اور اگر حق مندوب فوت ہوگا تو مکروہ تنزیہی یعنی خلاف اولی اور نامناسب ہوں گے، اس لیے آپ کا روزوں کے بارے میں مستقل معمول نہ تھا اور آپ نے داؤدی روزوں کو ترجیح دی تھی، بشرط یہ کہ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ “ یہ حال قراءت قرآن کا ہے کہ جتنی قراءت پر ہمیشگی ممکن ہو، حقوق وفرائض متاثر نہ ہو اور طبعیت کے اندر نشاط قائم رہے اور دل میں بیزاری اور اکتاہٹ پیدا نہ ہو، ایک انسان تمام ذمہ داریوں سے سبکدوشی ہو چکا ہے وہ ہر وقت دن، رات فارغ ہے، کوئی کام کاج نہیں ہے، وہ فرصت کے ہر لمحہ میں پڑھ سکتا ہے، اگر اس کو معانی اور مطالب کا پتہ ہی نہیں ہے اور نہ سیکھنے کا شوق وذوق تو وہ اپنی نیت کے مطابق، جس قدر قرآن چاہے ختم کر سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2743
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1153
1153. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہاں، میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تو ایسا کرتا رہا تو تمہاری بینائی کمزور ہو جائے گی اور تیرا جی تھک جائے گا۔ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نیز نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1153]
حدیث حاشیہ: گویا آنحضرت ﷺ نے ایسے سخت مجاہدہ سے منع کیا۔ اب جو لوگ ایسا کریں وہ آنحضرت ﷺ کی سنت کے خلاف چلتے ہیں، اس سے نتیجہ کیا؟ عبادت تو اسی لیے ہے کہ اللہ اور رسول راضی ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1974
1974. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے پوری حدیث ذکر کی، یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ حضرت داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”نصف دہر تھا۔“ یعنی ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1974]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ نفلى روزہ سے زیادہ موجب ثواب یہ امر ہے کہ مہمان کے ساتھ کھائے پئیے، اس کی تواضع کرنے کے خیال سے خود نفل روزہ ترک کردے کہ مہمان کا ایک خصوصی حق ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ جو شخص اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1974
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1975
1975. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔“ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: ”اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1975]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں پچھلے مضمون کی مزید وضاحت ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے جو عبادت میں زیادہ سے زیادہ انہماک کے خواہش مند ہوں ان کے لیے داؤد ؑ کے روزے کو بطور مثال بیان فرمایا اور ترغیب دلائی کہ ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ صوم داؤدی کی اقتداءکریں اور اس میانہ راوی سے ثواب عبادت حاصل کریں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1975
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6134
6134. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا میری خبرصحیح ہے کہ تم رات بھی قیام کرتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کرو، روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ بے شک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہوگی۔ تمیارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھو کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے اس طرح زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ہوگا۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا: میں نے اپنی جان پر سختی کی تو مجھ پر سختی کر دی گئی میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم اللہ کے نبی حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6134]
حدیث حاشیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو ملکی اور بہیمی دونوں طاقتیں دے کر معجون مرکب پیدا فرمایا ہے۔ اگر ایک قوت کا بالکل تباہ کر کے انسان فرشتہ بن جائے تو گویا وہ اپنی فطرت بگاڑتا ہے۔ منشائے قدرت یہ ہے کہ آدمی کو آدمی ہی رہنا چاہیئے، عبادت الٰہی بھی ہو اور دنیا کے حظوظ بھی جائز حد کے اندر حاصل کئے جائیں۔ یہی سنت نبوی ہے کہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کئے جائیں اور عبادت بھی کی جائے۔ رات کو آرام بھی کیا جائے اور عبادت بھی کی جائے، اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بارے میں خاص طور سے فرمایا کہ نکاح کرنا میری سنت ہے اورجو میری سنت سے نفرت کرے وہ میری امت سے خارج ہے۔ اس سے مجرد رہنے والے نام نہاد پیروں کو سبق لینا چاہیئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6134
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1977
1977. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو میرے متعلق یہ خبر پہنچی کہ میں متواتر روزے رکھتا ہوں اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ نے مجھے پیغام بھیجا یا میں خود آپ سے ملاتو آپ نے فرمایا: ”مجھے تیرے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل روزے رکھتے ہو اور افطار نہیں کرتے اور نماز پڑھتے رہتے ہو؟روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کاتم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے بچوں کاتم پر حق ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس کی اپنے اندر ہمت پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔“ عرض کیا: وہ کیسے تھے؟آپ نے فرمایا: ”وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، جب دشمن کامقابلہ کرتے تو راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ!میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1977]
حدیث حاشیہ: اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جنہوں نے سدا روزہ رکھنا مکروہ جانا ہے، ابن عربی نے کہا جب آنحضرت ﷺ نے سدا روزہ رکھنے والے کی نسبت یہ فرمایا کہ اس نے روزہ نہیں رکھا تو اب اس کو ثواب کی کیا توقع ہے۔ بعض نے کہا اس حدیث میں سدا روزہ رکھنے سے یہ مراد ہے کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی افطار نہ کرے۔ اس کی کراہیت اور حرمت میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر ان دنوں میں کوئی افطار کرے اور باقی دنوں میں روزہ رکھا کرے بشرطیکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کے حقوق میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو ظاہر ہے کہ مکروہ نہ ہوگا۔ مگر ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ صوم داؤد ؑ رکھے یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار تفصیل مزید کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔ ایک روایت میں لا صام و لا فطر کے لفظ آئے ہیں کہ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا گویا اس کو نہ روزے کا ثواب ملا نہ اس پر گناہ ہوا کیوں کہ اس طرح روزہ رکھنے سے اس کا نفس عادی ہو گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1977
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1153
1153. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی کہ تم رات بھر نماز پڑھتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟“ میں نے عرض کیا: ہاں، میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اگر تو ایسا کرتا رہا تو تمہاری بینائی کمزور ہو جائے گی اور تیرا جی تھک جائے گا۔ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے، اس لیے روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو، نیز نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1153]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں: میں نے اللہ کی قسم کھا کر یہ وعدہ کیا تھا کہ زندگی بھر دن کا روزہ رکھوں گا اور رات کا قیام کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”یہ تیرے بس کا کام نہیں۔ “ اور مذکورہ ارشادات فرمائے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3418) ایک روایت میں ہے کہ میرے والد عمرو بن عاص ؓ نے میرا نکاح ایک اعلیٰ نسب والی عورت سے کر دیا۔ وہ ایک دن اپنی بہو سے ملنے آئے اور میرے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ اچھے آدمی ہیں، لیکن ہمارے حقوق کی خبر گیری نہیں کرتے۔ انہوں نے رسول الله ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ مجھ سے ملاقات کرے۔ “ ملاقات کے وقت آپ نے مجھے مذکورہ ہدایات دیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5052) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمانوں کا بھی تجھ پر حق ہے۔ ہر ماہ کے تین روزے کافی ہیں۔ اللہ کے ہاں ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہو گا، اس طرح تجھے زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ملے گا۔ “ لیکن میں نے خود پر تشدد کیا، کاش کہ میں اس رخصت کو قبول کر لیتا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1975)(2) اس سے معلوم ہوا کہ مستحبات پر واجبات کی ادائیگی کو مقدم کرنا چاہیے اور دیگر حقوق کی ادائیگی اس قدر نہ کی جائے کہ عبادت کا حق پامال ہونے لگے، اس لیے مذکورہ حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے عبادت میں مصروف ہونا ایک مسلمان کی شان ہے۔ (فتح الباري: 61/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1153
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1974
1974. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ آپ نے پوری حدیث ذکر کی، یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔“ میں نے عرض کیا کہ حضرت داود ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: ”نصف دہر تھا۔“ یعنی ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1974]
حدیث حاشیہ: (1) علامہ زین بن منیر نے لکھا ہے: اگر عنوان کے الفاظ حسب ذیل ہوتے تو زیادہ مناسب تھا: ”افطار کرنے میں مہمان کا حق“ لیکن ہمارے نزدیک ان کا ملاحظہ محل نظر ہے کیونکہ روزے میں مہمان کا حق یہ ہے کہ اس کی خاطر اسے افطار کر دیا جائے لیکن افطار میں اس کا حق کیا ہو سکتا ہے؟ اس لیے امام بخاری ؒ کے عنوان ہی میں جامعیت ہے۔ (2) اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ اگر کسی نے نفلی روزہ رکھا ہے تو اسے مہمان کی خاطر ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ مہمان کا حق ہے کہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے اور اس کی دیگر ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ بحالت روزہ حقِ ضیافت ادا نہیں ہو سکتا۔ یہ حدیث بہت طویل ہے۔ امام بخاری ؒ نے صرف وہی حصہ بیان کیا ہے جو عنوان سے متعلق تھا۔ (3) قبل ازیں حضرت سلمان اور حضرت ابو درداء ؓ کے واقعے میں یہ مسئلہ بیان ہو چکا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1974
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1975
1975. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟“ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔“ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: ”اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1975]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں نفلی عبادت کرتے وقت جسم کا حق بیان کیا گیا ہے۔ اس حق سے مراد واجب نہیں بلکہ رعایت و نرمی ہے، یعنی نفلی روزہ رکھتے وقت جسم کی رعایت کرنی چاہیے اور اس پر سختی نہ کی جائے تاکہ دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے جس عبادت کا التزام کر رکھا تھا، بڑھاپے اور قوت میں کمی کے باعث اس میں کمی آنے لگی، لیکن اس التزام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں خود پر لازم کر لیا تھا، لیکن کف افسوس ضرور ملتے کہ کاش! میں آپ کی عطا کردہ رخصت قبول کر لیتا تو آج مجھے اس قدر سختی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ دراصل صحابۂ کرام ؓ کے لیے وہ حالت چھوڑنا مشکل تھی جس پر رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا: "کاش! میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح شب مزدلفہ سے اجازت مانگ لیتی تو اچھا ہوتا مگر اب اس حالت کو نہیں چھوڑ سکتی۔ “(فتح الباري: 280/4)(2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ بڑھاپے کے وقت یہ پابندی دشوار ہوئی تو کہنے لگے: کاش! میں نے آپ کی اجازت قبول کی ہوتی اور ایک مہینے کے تین روزے رکھنے کی عادت اختیار کرتا لیکن اب مجھ سے اتنے روزے نہیں رکھے جاتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1975
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1977
1977. حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو میرے متعلق یہ خبر پہنچی کہ میں متواتر روزے رکھتا ہوں اور رات بھر نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ نے مجھے پیغام بھیجا یا میں خود آپ سے ملاتو آپ نے فرمایا: ”مجھے تیرے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ تم مسلسل روزے رکھتے ہو اور افطار نہیں کرتے اور نماز پڑھتے رہتے ہو؟روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور آرام بھی کرو کیونکہ تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے، تمہاری جان کاتم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے بچوں کاتم پر حق ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: میں اس کی اپنے اندر ہمت پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”حضرت داود ؑ جیسے روزے رکھو۔“ عرض کیا: وہ کیسے تھے؟آپ نے فرمایا: ”وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے، جب دشمن کامقابلہ کرتے تو راہ فرار نہیں اختیار کرتے تھے۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے عرض کیا: اللہ کے نبی کریم ﷺ!میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1977]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ نفلی روزے رکھتے وقت دوسروں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کو اس کا حق دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف قسم کی عبادات کا پابند بنایا ہے۔ اگر ایک ہی عبادت میں تمام وقت صرف کر دے اور دوسرے حقوق کو پامال کر دے تو ایسا کرنا اللہ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ (2) صحیح مسلم کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو مہینے میں تین دن، پھر چھ، پھر نو اس کے بعد بارہ روزے رکھنے کی اجازت دی۔ جب انہوں نے اس سے زیادہ کا اصرار کیا تو آخری حد پندرہ مقرر فرمائی، نیز فرمایا: ”اس سے زیادہ روزے رکھنا بہتر نہیں۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2729(1159) حضرت داود ؑ کی یہ عادت تھی کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ترک کرتے تھے۔ اتنے روزے رکھنے کے باوجود وہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے تھے اور نہ وعدہ خلافی ہی کرتے۔ چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ہمیشہ روزے رکھتے تھے جسے صیام الدہر کہا جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے صیام الدہر کے متعلق فرمایا: ایسا انسان روزے کے ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس مناسبت سے رسول اللہ ﷺ نے ”ہمیشہ روزے رکھنے“ کا ذکر فرمایا جس کے متعلق حضرت عطاء کو علم نہ ہو سکا اور انہوں نے روایت میں اس کا اظہار فرمایا۔ بہرحال نفلی عبادت کرتے وقت دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اہل خانہ کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1977
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6134
6134. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو فرمایا: کیا میری خبرصحیح ہے کہ تم رات بھی قیام کرتے ہو اور دن کا روزہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کرو، روزہ رکھو اور افطار بھی کرو۔ بے شک تمہارے جسم کا تم پر حق ہے تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے تم سے ملاقات کے لیے آنے والوں کا بھی تم پر حق ہے تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ امید ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہوگی۔ تمیارے لیے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھو کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گناہ ملتا ہے اس طرح زندگی بھر کے روزوں کا ثواب ہوگا۔“ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا: میں نے اپنی جان پر سختی کی تو مجھ پر سختی کر دی گئی میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر تم اللہ کے نبی حضرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:6134]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں تعلیم دی ہے کہ انسان کو اعتدال کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے اور دنیا کی زندگی سے جائز حد تک لطف اندوز بھی ہوتا رہے۔ سنت نبوی یہی ہے کہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کیے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پامال نہ ہونے پائیں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مہمان کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے، وہ صرف کھانا دینا ہی نہیں بلکہ اس کے پاس بیٹھنا، اس سے مانوس ہونا، اس کی احوال اور مزاج پرسی کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر دن کا روزہ اور رات کا قیام کرے گا تو مہمان کا حق کیسے ادا کر سکے گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6134