ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بہت دنوں تک میرے دل میں خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے متعلق پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی۔ «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» الخ۔ ایک مرتبہ انہوں نے حج کیا اور ان کے ساتھ میں نے بھی حج کیا۔ ایک جگہ جب وہ راستہ سے ہٹ کر (قضائے حاجت کے لیے) گئے تو میں بھی ایک برتن میں پانی لے کر ان کے ساتھ راستہ سے ہٹ گیا۔ پھر انہوں نے قضائے حاجت کی اور واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انہوں نے وضو کیا تو میں نے اس وقت ان سے پوچھا کہ یا امیرالمؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ کون ہیں جن کے متعلق اللہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما» عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اے ابن عباس! تم پر حیرت ہے۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کرنی شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے اور عوالی مدینہ میں رہتے تھے۔ ہم نے (عوالی سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں حاضری دیتا، جب میں حاضر ہوتا تو اس دن کی تمام خبریں جو وحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا) اور جس دن وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی ایسے کرتے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب تھے لیکن جب ہم مدینہ تشریف لائے تو یہ لوگ ایسے تھے کہ عورتوں سے مغلوب تھے، ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنا شروع کر دیا۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگتا ہے، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ان کو جوابات دے دیتی ہیں اور بعض تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں۔ میں اس بات پر کانپ اٹھا اور کہا کہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیا یقیناً وہ نامراد ہو گئی۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور (مدینہ کے لیے) روانہ ہوا پھر میں حفصہ کے گھر گیا اور میں نے اس سے کہا: اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں کبھی (ایسا ہو جاتا ہے) میں نے اس پر کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال لیا اور نامراد ہوئی۔ کیا تمہیں اس کا کوئی ڈر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پر غصہ ہو جائے اور پھر تم تنہا ہی ہو جاؤ گی۔ خبردار! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات نہ کیا کرو نہ کسی معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا کرو اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا کرو۔ اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ تمہاری سوکن جو تم سے زیادہ خوبصورت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ پیاری ہے، ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جانا۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ملک غسان ہم پر حملہ کے لیے فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔ میرے انصاری ساتھی اپنی باری پر مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے۔ وہ رات گئے واپس آئے اور میرے دروازے پر بڑی زور زور سے دستک دی اور کہا کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ گھر میں ہیں۔ میں گھبرا کر باہر نکلا تو انہوں نے کہا کہ آج تو بڑا حادثہ ہو گیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی، کیا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، حادثہ اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ حفصہ تو خاسر و نامراد ہوئی۔ مجھے تو اس کا خطرہ لگا ہی رہتا تھا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ جلد ہی ہو گا پھر میں نے اپنے تمام کپڑے پہنے (اور مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا) میں نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی (نماز کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک بالا خانہ میں چلے گئے اور وہاں تنہائی اختیار کر لی۔ میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا اب روتی کیا ہو۔ میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بالا خانہ میں تنہا تشریف رکھتے ہیں۔ میں وہاں سے نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ اس کے گرد کچھ صحابہ کرام موجود تھے اور ان میں سے بعض رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اس کے بعد میرا غم مجھ پر غالب آ گیا اور میں اس بالا خانہ کے پاس آیا۔ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حبشی غلام سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اندر آنے کی اجازت لے لو۔ غلام اندر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر کے واپس آ گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن آپ خاموش رہے۔ چنانچہ میں واپس چلا آیا اور پھر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ میرا غم مجھ پر غالب آیا اور دوبارہ آ کر میں نے غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت لے لو۔ اس غلام نے واپس آ کر پھر کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں پھر واپس آ گیا اور منبر کے پاس جو لوگ موجود تھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ لیکن میرا غم مجھ پر غالب آیا اور میں نے پھر آ کر غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت طلب کرو۔ غلام اندر گیا اور واپس آ کر جواب دیا کہ میں نے آپ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے واپس آ رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پر جس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر نہیں تھا۔ بان کے نشانات آپ کے پہلو مبارک پر پڑے ہوئے تھے۔ جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا نہیں۔ میں (خوشی کی وجہ سے) کہہ اٹھا۔ اللہ اکبر۔ پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ پھر جب ہم مدینہ آئے تو یہاں کے لوگوں پر ان کی عورتیں غالب تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرا دیئے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے میں حفصہ کے پاس ایک مرتبہ گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ اپنی سوکن کی وجہ سے جو تم سے زیادہ خوبصورت اور تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز ہے، دھوکا میں مت رہنا۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دیئے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو بیٹھ گیا پھر نظر اٹھا کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا جائزہ لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس پر نظر رکتی۔ سوا تین چمڑوں کے (جو وہاں موجود تھے) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی امت کو فراخی عطا فرمائے۔ فارس و روم کو فراخی اور وسعت حاصل ہے اور انہیں دنیا دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ابن خطاب! تمہاری نظر میں بھی یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں جو کچھ بھلائی ملنے والی تھی سب اسی دنیا میں دے دی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کر دیجئیے (کہ میں نے دنیاوی شان و شوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو اسی وجہ سے انتیس دن تک الگ رکھا کہ حفصہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز عائشہ سے کہہ دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک مہینہ تک میں اپنی ازواج کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بہت رنج ہوا (اور آپ نے ازواج سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا) پھر جب انتیسویں رات گزر گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور آپ سے ابتداء کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمارے یہاں ایک مہینہ تک تشریف نہیں لائیں گے اور ابھی تو انتیس ہی دن گزرے ہیں میں تو ایک ایک دن گن رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس کا ہے۔ وہ مہینہ انتیس ہی کا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «تخير» نازل کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج میں سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے (اور مجھ سے اللہ کی وحی کا ذکر کیا) تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پسند کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام دوسری ازواج کو اختیار دیا اور سب نے وہی کہا جو عائشہ رضی اللہ عنہا کہہ چکی تھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5191]
أولئك قوم عجلوا طيباتهم في الحياة الدنيا فقلت يا رسول الله استغفر لي فاعتزل النبي نساءه من أجل ذلك الحديث حين أفشته حفصة إلى عائشة تسعا وعشرين ليلة وكان قال ما أنا بداخل عليهن شهرا من شدة موجدته عليهن حين عاتبه الله فلما مضت تسع وعشرو
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5191
حدیث حاشیہ: دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مت کہا کر آپ کے ہاں روپیہ اشرفی نہیں ہے اگر تجھ کو کسی چیز کی حاجت ہو، تیل ہی درکار ہو تو مجھ سے کہو میں لا دوں گا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مت کہنا۔ یہاں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ خاوند کے بارے میں باپ کا اپنی بیٹی کو سمجھانا جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔ جس میں ازواج مطہرات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے یا الگ ہو جانے کا اختیار دیا گیا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5191
حدیث حاشیہ: (1) اس طویل اور لمبی حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کے خاوند کے متعلق وعظ و نصیحت کرتا رہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دختر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو دو ٹوک الفاظ میں وعظ فرمایا کہ بیٹی تم خود کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر قیاس نہ کرو۔ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چہیتی ہیں۔ انھیں اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر بہت ناز ہے۔ اگر تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے کہنا، اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ نہ کرنا۔ (2) واقعی گھریلو معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ابتدا میں بہت معمولی ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا سی غفلت اور سستی کی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت حال اختیار کرلیتے ہیں، خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اسے طبعی طور پر اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں وہ اپنے خاوند کو خاطر میں نہیں لاتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورتوں کی اس قسم کی نفسیات کو خوب سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے بروقت اس بات کا نوٹس لیا اور اپنی بیٹی کو سمجھایا۔ باپ کو چاہیے کہ وہ پہلے دن ہی سے اپنی بیٹی کو کہہ دے کہ اب تیری خوشحالی و بدحالی تیرے خاوند سے وابستہ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا باعث بھی تیرا خاوند ہی ہے۔ تو امید ہے کہ عائلی زندگی جنت کی نظیر ثابت ہوگی۔ والله المستعان.(3) وه قصہ کیا تھا جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھائی؟ اور وہ راز کیا تھا جسے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ظاہر کیا؟ اللہ تعالیٰ کا عتاب کس بات پر ہوا؟ ان تمام باتوں کی تفصیل ہم کتاب التفسیر میں بیان کر آئے ہیں، اسے وہاں ایک نظر دیکھ لیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5191
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4153
´آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4153]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ نے دنیا کا مال جمع نہیں کیا بلکہ زہد اختیار فرمایا۔
(2) گھر میں ایک دو دقت کی خوراک موجود ہونا زہد کے منافی نہیں۔
(3) بے تکلف ساتھیوں میں صرف تہ بند پہن کریعنی قمیص پہنے بغیر بیٹھنا جائز ہے۔
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے شدید محبت رکھتے تھے۔
(5) کافروں کو ان کی نیکیوں کا معاوضہ دنیا ہی میں دنیوی سامان یا عیش و عشرت کی صورت میں مل جاتا ہے۔
(6) مسلمان پر دنیوی تنگ دستی آخرت میں درجات کی بلندی کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4913
4913. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک آیت کے متعلق حضرت عمر ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک ٹھہرا رہا لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر وہ ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ واپسی کے وقت جب ہم راستے میں تھے تو آپ رفع حاجت کے لیے ایک پیلو کے درخت کے پاس گئے۔ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب آپ فارغ ہو کر آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ اس وقت میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! امہات المومنین میں سے وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدہ حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے یہ سوال کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا، لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4913]
حدیث حاشیہ: روایت میں ضمنی طور پر بہت سی باتیں ذکر میں آگئی ہیں، خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فاروقی جلال کا بیان بڑے اونچے لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس پر مولانا وحیدالزماں مرحوم کا نوٹ درج ذیل ہے۔ ہیبت حق ست ایں از خلق نیست ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست ”حضرت عمر کا جاہ و جلال ایسا ہی تھا یہ اللہ کی طرف سے تھا اتنا سخت ترین رعب کہ موافق مخالف سب تھراتے رہتے تھے۔ مقابلہ تو کیا چیز ہے مقابلہ کے خیال کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی۔ “ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دس بارہ سال اورزندہ رہتے تو ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مخالفین جو شیعہ اور روافض ہیں وہ بھی آپ کے حسن انتظام اور خوبی سیاست اور جلال اور دبدبہ کے معترف ہیں۔ ایک مجلس میں چند رافضی بیٹھے ہوئے جناب عمر کی شان میں کچھ بے ادبی کی باتیں کر رہے تھے، انہیں میں سے ایک باانصاف شخص نے کہا کہ حضرت عمر کو انتقال کئے ہوئے آج تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اب تم ان کی برائی کرتے ہو بھلا سچ کہنا اگر حضرت عمر ایک تلوار کاندھے پر رکھے ہوئے اس وقت تمہارے سامنے آ جائیں تو تم ایسی باتیں کر سکو گے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے آ جائیں تو ہمارے منہ سے بات نہ نکلے۔ اس موقع پر حضرت عمر کا بیان دوسری روایت میں یوں ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا دیکھا تو آپ کے چہرے پر ملال معلوم ہوتا تھا میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں گویا آپ کا دل بہلایا پھر ذکر کرتے کرتے میں نے کہا یا رسول اللہ! میری جورو اگر مجھ سے بڑھ بڑھ کر کچھ مانگے تو میں اس کی گردن ہی توڑ ڈالوں، اس پر آپ ہنس دیئے آپ کا رنج جاتا رہا۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی اور لیاقت اور علم مجلسی پر آفریں۔ مسلمانو! دیکھو پیغمبر کا عشق اس کو کہتے ہیں۔ پیغمبر صاحب کا رنج صحابہ کو ذرا بھی گوارا نہیں تھا۔ اپنی بیٹیوں کو ٹھونکنے اور تنبیہ کرنے پر مستعد تھے۔ افسوس ہے کہ ایسے بزرگان دین عاشقان رسول پر ہم تہمتیں باندھیں اور اس زمانہ کے بد معاش منافق لوگوں پر قیاس کرکے ان کی برائی کریں۔ یہ شیطان ہے جو تم کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بزرگان دین نثار ان سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تم کو بدگمان بناتا ہے توبہ کرو توبہ لا حولَ وَ لَا قُوةَ إلا باللہَ (وحیدی) روایت میں سلم کے پتوں کا ذکر ہے۔ سلم قرظ کو کہتے ہیں جس کے پتوں سے چمڑا صاف کرتے ہیں غالباً کیکر کا درخت ہے جس کی چھال سے چمڑہ رنگا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سرو سامانی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اظہار ملال بھی بجا تھا۔ ہائے بادشاہ کونین نے دنیا میں زندگی بے سر و سامانی اور تکلیف کے ساتھ بسر کی۔ مسلمانو! ہمارے سردارنے دنیا اس طرح کاٹی توہم کیوں اپنی بے سر و سامانی اور مفلسی پر رنج کریں اور دنیا کے بے حقیقت اور فانی مال ومتاع کے لئے ان دنیا دار کتوں سے کیوں ڈریں۔ یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ایک بوریا اور ایک پانی کا کوزہ ہم کو کہیں بھی مل جائے گا۔ کوئی ہم کو ڈراتا ہے دیکھوشرع کی سچی بات کہو گے تو نوکری چھن جائے گی کوئی کہتا ہے شہر سے نکالے جاؤ گے۔ ارے بے وقوفو! شہر سے نکالیں گے پر زمین سے نہیں نکال سکتے۔ ساری زمین میں کہیں بھی رہ جائیں گے نوکری چھین لیں گے تو چھین لیں ہم تجارت اور محنت کرکے اپنی روٹی کمالیں گے۔ پروردگار رازق مطلق ہے وہ جب تک زندگی ہے کسی بہانے سے روٹی دے گا۔ تم لاکھ ڈراؤ ہم ڈرانے والے نہیں ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ ﴿و عَلی اللہِ فَلیَتَوَکلِ المُومِنُونَ﴾(وحیدی) حضرت حفصہ جن کا روایت میں ذکر ہے حضرت عمر بن خطاب کی صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ زینب ہیں جو مظعون کی بیٹی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اور حضرت خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھی، غزوہ بدر کے بعد حضرت خنیس کا انتقال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر نے ان کا نکاح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ یہ 3ھ کا واقعہ ہے۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی لیکن اللہ پاک نے آپ پر وحی سے اطلاع کر دی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ بہت روزہ رکھتی ہیں، رات کو عبادت کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی۔ چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کر لیا۔ ان کی وفات شعبان45ھ میں بعمر60 سال ہوئی۔ رضي اللہ عنها و أرضاھا (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4913
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4913
4913. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک آیت کے متعلق حضرت عمر ؓ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک ٹھہرا رہا لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے میری ہمت نہ پڑتی تھی۔ آخر وہ ایک مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ واپسی کے وقت جب ہم راستے میں تھے تو آپ رفع حاجت کے لیے ایک پیلو کے درخت کے پاس گئے۔ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا۔ جب آپ فارغ ہو کر آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ چلا۔ اس وقت میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! امہات المومنین میں سے وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی ﷺ کے متعلق ایک منصوبہ تشکیل دیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ وہ سیدہ حفصہ اور حضرت عائشہ ؓ تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے یہ سوال کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا، لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4913]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت نرم مزاج اور حوصلہ مند تھے۔ آپ معمولی باتوں کو خاطر میں نہ لاتے لیکن ازواج مطہرات سےناراضی اس بات کی دلیل تھی کہ یقیناً یہ بات قابل برداشت نہیں ہے۔ ان دونوں ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کا رویہ واقعی ایسا ہی قابل اعتراض تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہو جانے اور بالا خانہ میں خلوت نشین ہونے پر حق بجانب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر خود اللہ تعالیٰ اس بات پر حق بجانب تھا کہ ان ازواج کو ان کے رویے پر شدت کےساتھ تنبیہ فرمائے۔ 2۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس معاملے میں صرف حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کا قصور نہیں تھا بلکہ دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین بھی کچھ نہ کچھ اس میں حصے دارتھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ آیات میں تمام ازواج مطہرات کو تنبیہ کی گئی ہے۔ اور یہ بات بھی تاریخ پر ثبت ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کی دو پارٹیاں بن گئی تھیں: ایک میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جبکہ دوسری پارٹی میں حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اور باقی ازواج رضوان اللہ عنھن اجمعین شامل تھیں۔ حدیث میں اس امر کی بھی صراحت ہے کہ ایک دفعہ تمام ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف غیرت کا رعب جمانے کے لیے باہمی اتفاق کرلیا تھا جو عورتوں کی طبیعت کے مطابق اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کے خلاف تھا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4916)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4913