اور ابراہیم بن طہمان نے ابوعثمان جعد بن دینار سے روایت کیا، انہوں نے انس بن مالک سے، ابوعثمان کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے سامنے سے بنی رفاعہ کی مسجد میں (جو بصرہ میں ہے) گزرے۔ میں نے ان سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے، ان کو سلام کرتے (وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں)۔ پھر انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے۔ آپ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا تو ام سلیم (میری ماں) مجھ سے کہنے لگیں اس وقت ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے۔ میں نے کہا مناسب ہے۔ انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھجوایا، میں لے کر آپ کے پاس چلا، جب پہنچا تو آپ نے فرمایا رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نام لیا اور جو بھی کوئی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا۔ لوٹ کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا (برکت کی دعا فرمائی)۔ پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے۔ (رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے) یہاں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دئیے۔ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا (اس خیال سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو گی) آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں پر گئے میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا اب وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں۔ اس وقت آپ لوٹے اور (زینب رضی اللہ عنہا کے حجرے میں) آئے۔ میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میرے اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا۔ آپ سورۃ الاحزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ”مسلمانو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے تم کو اندر آنے کی اجازت دی جائے اس وقت جاؤ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر آ جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو۔ باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہا کرو، ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی، اس کو تم سے شرم آتی تھی (کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ) اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا۔“ ابوعثمان (جعدی بن دینار) کہتے تھے کہ انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5163]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5163
حدیث حاشیہ: قاضی عیاض نے کہا یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں تو آپ نے لوگوں کو پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھلایا تھا جیسا کہ دوسری روایت میں ہے پھر انہوں نے کیا کھایا۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ کھانا بڑھ گیا تھاتو اس روایت میں راوی کا سہو ہے۔ اس نے ایک قصہ کو دوسرے قصہ پر چسپاں کر دیا ادھر ممکن ہے کہ حلوہ اسی وقت آیا ہو جب لوگ روٹی گوشت کھا رہے ہوں تو سب نے یہ حلوہ بھی کھا لیا ہو۔ قرطبی نے کہا شاید ایسا ہوا ہو گا کہ روٹی گوشت کھا کر کچھ لوگ چل دئے ہوں گے، صرف تین آدمی ان میں سے بیٹھے رہ گئے ہوں گے جو باتوں میں لگ گئے تھے اتنے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ حلوہ لے کر آئے ہوں گے تو آپ نے ان کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کو بلوایا وہ بھی کھا کر چل دئیے لیکن یہ تین آدمی بیٹھے کے بیٹھے رہے۔ ان ہی سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اب بھی حکم یہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5163
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5163
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ دلھا اور دلھن کو تحائف بھیجنا مستحب ہے۔ اسلام سے پہلے بھی انھیں شادی کے موقع پر تحائف بھیجے جاتے تھے۔ اسلام نے دور جاہلیت کی اس رسم کو برقرار رکھا اور اسے پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تحفہ اگرچہ مقدار میں کم ہو وہ محبت اور الفت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بے تکلفی کو فروغ ملتا ہے جو آپس کے میل جول کی بنیاد ہے۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما نے اسی اصول کے مطابق قلیل مقدار میں تحفہ بھیجا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں خوب خوب برکت ڈال دی۔ (2) بعض حضرات نے اس حدیث کے متعلق ایک اشکال ظاہر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے پر گوشت اور روٹی کھلائی تھی جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے ام سلیم رضی اللہ عنہما کے حلوے سے ولیمے کی دعوت کی؟ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور روٹی کھانے کے دوران میں ہی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف سے حلوہ آ گیا جو سویٹ ڈش کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس بنا پر ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 283/9) و اللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5163