ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زھری نے، کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو یونس بن یزید اور موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن ابی عتیق نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5145]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5145
حدیث حاشیہ: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کر دی یہی باب کا مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5145
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5145
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5145 کا باب: «بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب سے خطبہ ترک کرنے کی تفسیر کو واضح کر رہے ہیں اور تحت الباب ام المومنیں حفصہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ کو پیش فرماتے ہیں، حالانکہ تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا جا رہا ہے وہ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ تحت الباب حدیث میں خطبہ ترک کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
چنانچہ ابن بطال اس اعتراض کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: «تقدم فى الباب الذى قبله تفسير ترك الخطبة صريحا فى قوله: ”حتى ينكح او يترك“ وحديث عمر فى قصة حفصه رضي الله عنها لا يظهر منه تفسير ترك الخطبة لأن عمر لم يكن علم أن النبى صلى الله عليه وسلم خطب حفصه، قال: ولكنة قصد معنى دقيقاً يدل على ثقوب ذهنة ورسوخه الاستنباط.»[فتح الباري لابن حجر: 172/10] ”یعنی بظاہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس واقعہ کی کوئی مناسبت ترجمۃ الباب سے معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس واقعہ میں خطبہ ترک کرنے کی کوئی تفسیر معلوم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اس بات کے تحت ذکر کر کے ایک لطیف اور دقیق استنباط فرمایا ہے اور وہ یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام بھیجیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو رد نہیں کریں گے۔“ لہٰذا ابن بطال رحمہ اللہ کی مطابقت سے سے ترجمہ الباب اور حدیث میں بہترین مناسبت قائم ہو جاتی ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ کی اس مناسبت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: «وما ابداه ابن بطال ادق وأولي» ”یعنی ابن بطال کا قول دقیق اور اولیٰ ہے۔“
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب مذکورہ واقعہ ذکر کر کے «خطبه على الخطبه» کی مطلقاً ممانعت بیان فرمائی ہے، کیونکہ مذکورہ واقعہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار فرما دیا تھا، حالانکہ خاطب اور ولی کے مابین ابھی بات طے نہیں ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا گیا تھا ابھی صرف ارادہ اور خیال تھا تو جس صورت میں پیغام نکاح بھیج دیا گیا ہو اس میں بطریق اولیٰ خطبہ نہیں بھیجنا چاہیے۔“[المتواري: ص291] اسی مفہوم کے قریب قریب مطابقت ابن الملقن نے بھی دی ہے۔ [التوضيح: 443/24]
محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: «أن الامام البخاري اشاره أن اراده الرجل الخطبة أيضاً داخل فى الخطبة، لأن ابابكر امتنع عن الخطبة لعلمه إرداة صلى الله عليه وسلم الخطبة، مع أنه صلى الله عليه وسلم لم يخطب بعد، واذا كانت إراداة الخطبة فى حكم الخطبة فترك الإراداة تركها، فطابق الحديث بالترجمة.»[الابواب و التراجم: 218/5] ”امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب آدمی کا خطبہ کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ارادہ خطبہ میں دخل ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے، خطبہ سے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کو جانتے تھے، جبکہ ارادہ خطبہ، خطبہ میں داخل ہے۔“ پس انہوں نے اپنے خطبہ کے ارادے کو ترک کر دیا پس یہیں سے مطابقت ہے ترجمۃ الباب سے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: «مطابقته للترجمه تؤخذ من قوله ”فلقيني ابوبكر“ الى اخره، فان فيه اعتزار أبى بكر لعمر عن ترك خطبة واجابته لعمر لعلمه بأنه صلى الله عليه وسلم يريد خطبتها وهذا تفسير من ابي بكر لترك الخطبة.»[عمدة القاري للعيني: 185/20] ”ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں الفاظ ہیں، «فلقيني ابوبكر» پس ان الفاظوں میں عذر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، پس یہ تفسیر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کی۔“
شارحین کے اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، پس یہی تفسیر خطبہ ہے اور یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب قائم ہو گی۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5145
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پیش کش قبول نہ کرنے کی وجہ بیان کی ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کرنا چاہتے تھے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رجحان اور جھکاؤ معلوم ہو گیا تھا، اس لیے ان کی پیش کش کو قبول کرنا جائز نہ تھا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کی رضامندی معلوم ہو جائے تو ایسے حالات میں بھی منگنی نہیں کرنی چاہیے، ہاں جب کسی کے وہم و گمان میں بھی کوئی جھکاؤ نہ ہو تو ایسے حالات میں منگنی کی جا سکتی ہے۔ (3) ترک خِطبہ کی تفسیر پہلے عنوان سے ہو چکی ہے، اس عنوان سے مراد معذرت خواہی ہے اور ترک خِطبہ کی وجہ بیان کرنا ہے، جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رشتہ قبول نہ کرنے کی معذرت کی تھی۔ والله اعلم (فتح الباري: 252/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5145
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3250
´پسندیدہ شخص سے شادی کے لیے اپنی بیٹی پیش کرنے کا بیان۔` عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، وہ خنیس بن حذافہ کے نکاح میں تھیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جو جنگ بدر میں موجود تھے، اور انتقال مدینہ میں فرمایا تھا)۔ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا، میں نے ان کے سامنے حفصہ کا تذکرہ کیا، اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دوں، انہوں نے کہا: میں اس پر غور کروں گا۔ چند راتیں گزرنے کے بعد میں ان سے ملا ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3250]
اردو حاشہ: (1)”رسول اللہﷺ کا راز“ جواب دینے کی صورت میں راز فاش ہونے کی نوبت آسکتی تھی۔ ادھر رسول اللہﷺ نے کوئی قطعی فیصلہ نہ فرمایا تھا۔ ممکن تھا آپ کی رائے بدل جاتی۔ ایسی صورت حال میں افشائے راز فریقین کے درمیان کدورت کا ذریعہ بن سکتا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُ وَأَرْضَاہُ۔ (2) یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ خلفائے راشدین ایک دوسرے کے بہت زیادہ خیر خواہ، محبت اور پیار کرنے والے تھے، ان میں کسی قسم کی باہمی منافرت، چپقلش اور دشمنی نعوذ باللہ نہ تھی، ورنہ دشمن کو اپنی بیٹی کوئی نہیں دیتا۔ (3) اگر ولی کو پتہ ہو کہ میرے منتحب کردہ رشتے کو ناپسند نہیں کیا جائے گا تو وہ اپنی زیرولایت لڑکی سے مشورہ کیے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے، خواہ وہ کنواری ہو یا شوہر دیدہ۔ (4) ثیبہ بھی ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح کرسکتی بلکہ ولی کی اجازت اس کے لیے بھی ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3250
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3261
´باپ کا اپنی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کا بیان۔` عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا: میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3261]
اردو حاشہ: معلوم ہوا بیوہ عورت کا نکاح بھی اس کا ولی ہی کرے گا، وہ خود نہیں کرے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ بیوہ عورت کے نکاح کے لیے ولی کو شرط قرار نہیں دیتے مگر یہ بات درست نہیں۔ ولی ہر عورت کے لیے ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بیوہ کے نکاح میں ولی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے بلکہ عورت کی رائے کو مان لینا چاہیے جبکہ کنواری لڑکی کے مسئلے میں ولی عورت کی مخالفت کرسکتا ہے۔ البتہ نکاح وہیں ہوگا جہاں ولی اور لڑکی دونوں راضی ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ (یہ حدیث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے، دیکھیے حدیث: 3250)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3261
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4005
4005. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت حفصہ ؓ کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ سہمی ؓ کی وفات ہو گئی اور وہ رسول اللہ ﷺ کے ان اصحاب میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی اور وہ مدینہ میں فوت ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان ؓ سے ملا اور ان سے حفصہ ؓ کا ذکر کیا اور کہا کہ اگر تمہارا ارادہ ہو تو اپنی دختر حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: میں اس پر غور کروں گا۔ پھر میں کئی راتیں ٹھہرا رہا تو حضرت عثمان ؓ نے جواب دیا: ابھی میں یہی مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان دنوں نکاح نہ کروں۔ پھر حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے کہا: اگر تم چاہو تو میں اپنی بیٹی حفصہ ؓ کا نکاح تم سے کر دوں۔ حضرت ابوبکر ؓ خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر حضرت عثمان ؓ سے بھی زیادہ غصہ آیا، مگر میں چند راتیں ہی ٹھہرا تھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4005]
حدیث حاشیہ: 1۔ خنیس بن حذافہ سہمی مہاجرین اولین میں سے ہیں۔ پہلے انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ واپس ہوئے تو بدر میں شرکت کی، وہاں شدید زخمی ہوگئے۔ مدینہ طیبہ میں زخم کے شدت اختیار کرنے سے فوت ہو گئے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ کےحقیقی بھائی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے پچیس ماہ بعد حضرت حفصہ ؓ سے نکاح کیا۔ 2۔ حضرت عمر ؓ کو حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق زیادہ خفگی اس لیے ہوئی کہ حضرت عثمان ؓ نے پہلے اس معاملے پر غور و فکر کرنے کی مہلت طلب کی، پھر معذرت کردی جبکہ سیدنا ابو بکرؓہ نے سرے سے کوئی جواب ہی نہ دیا۔ اس کے علاوہ حضرت ابو بکر ؓ سے تعلق خاطر بھی زیادہ تھا، اس لیے ناراضی بھی زیادہ ہوئی جو وضاحت کرنے سے ختم ہو گئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4005
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5122
5122. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جس وقت حفصہ بنت عمر خنیس بن حذافہ ؓ کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں۔۔۔۔۔ اور خنیس ؓ نبی ﷺ کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدنیہ طیبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا کہ میں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے پاس آیا انہیں حفصہ کے نکاح کی پیش کش کی، انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ چند دن گزر جانے کے بعد پھر میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: میرے لیے یہ امر ظاہر ہوا ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا تو میں نے (ان سے) کہا: اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح تم سے کر دوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ خاموش رہے اور مجھے جواب نہ دیا۔ مجھے ان کے عدم التفات کی وجہ سے سیدنا عثمان بن عفان ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5122]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی بیٹی سے نکاح کی کسی نیک مرد کو پیش کش کر سکتا ہے، اور اس میں کوئی بےعزتی اور توہین والی بات نہیں ہے۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زیادہ ناراض ہونا اس لیے تھا کہ انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبت تھی اور جہاں محبت زیادہ ہو وہاں ناراضی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر معذرت کی تھی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف خاموشی اختیار کیے رکھی۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے قابل اعتماد ساتھی سے یہ ذکر کرنا جائز ہے کہ وہ فلاں عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ابھی تک اسے پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی تقوی شعار کو اپنی بیٹی یا بہن سے نکاح کی پیش کش کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5122