35. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں کہ تم ان یعنی عدت میں بیٹھنے والی عورتوں سے پیغام نکاح کے بارے میں کوئی بات اشارہ سے کہو، یا (یہ ارادہ) اپنے دلوں میں ہی چھپا کر رکھو، اللہ کو تو علم ہے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غفور حليم» تک۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ بن قدام نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے مجاہد نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «فيما عرضتم» کی تفسیر میں کہا کہ کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو عدت میں ہو کہے کہ میرا ارادہ نکاح کا ہے اور میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی نیک بخت عورت میسر آ جائے اور اس نکاح میں قاسم بن محمد نے کہا کہ (تعریض یہ ہے کہ) عدت میں عورت سے کہے کہ تم میری نظر میں بہت اچھی ہو اور میرا خیال نکاح کرنے کا ہے اور اللہ تمہیں بھلائی پہنچائے گا یا اسی طرح کے جملے کہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ تعریض و کنایہ سے کہے۔ صاف صاف نہ کہے (مثلاً) کہے کہ مجھے نکاح کی ضرورت ہے اور تمہیں بشارت ہو اور اللہ کے فضل سے اچھی ہو اور عورت اس کے جواب میں کہے کہ تمہاری بات میں نے سن لی ہے (بصراحت) کوئی وعدہ نہ کرے ایسی عورت کا ولی بھی اس کے علم کے بغیر کوئی وعدہ نہ کرے اور اگر عورت نے زمانہ عدت میں کسی مرد سے نکاح کا وعدہ کر لیا اور پھر بعد میں اس سے نکاح کیا تو دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی۔ حسن نے کہا کہ «لا تواعدوهن سرا» سے یہ مراد ہے کہ عورت سے چھپ کر بدکاری نہ کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ «الكتاب أجله» سے مراد عدت کا پورا کرنا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5124]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5124
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران عدت میں عورت کو پیغام دینے یا نہ دینے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت بیان کی ہے جبکہ مرفوع احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما، جو آخری طلاق ملنے پر عدت کے ایام گزار رہی تھیں، سے فرمایا: ”جب تمہارے عدت کے ایام گزر جائیں تو مجھے اطلاع دینا۔ “(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3697 (1480) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران عدت میں پیغام بھیجا: ”اپنے متعلق میرے مشورے کے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کرلینا۔ “(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2286) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: جو عورت بھی دوران عدت میں ہو اسے واضح طور پر پیغام نکاح دینا حرام ہے، خواہ عدت وفات میں ہو یا عدت طلاق میں۔ اور عدت طلاق خواہ رجعی ہو یا بائنہ۔ یہ حکم ہر قسم کی عورت سے متعلق ہے، البتہ اشارہ اور تعریض عدت وفات میں جائز ہے جبکہ رجعی طلاق کی عدت میں جائز نہیں۔ (فتح الباري: 224/9) مقصد یہ ہے کہ بیوہ عورت کو دوران عدت میں پیغام نکاح کا اشارہ تو دیا جا سکتا ہے مگر واضح الفاظ میں کوئی بات کرنا درست نہیں۔ عدت کے بعد وضاحت کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی اجازت موجود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5124