اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) ان کو بیان فرمایا ہے «حرمت عليكم أمهاتكم وبناتكم وأخواتكم وعماتكم وخالاتكم وبنات الأخ وبنات الأخت» کہ ”حرام ہیں تم پر مائیں تمہاری، بیٹیاں تمہاری، بہنیں تمہاری، پھوپھیاں تمہاری، خالائیں تمہاری، بھتیجیاں تمہاری، بھانجیاں تمہاری۔ بیشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا «والمحصنات من النساء» سے خاوند والی عورتیں مراد ہیں جو آزاد ہوں وہ بھی حرام ہیں اور «وما ملكت أيمانكم» کا یہ مطلب ہے کہ اگر کسی کی لونڈی اس کے غلام کے نکاح میں ہو تو اس کو غلام سے چھین کر یعنی طلاق دلوا کر خود اپنی بیوی بنا سکتے ہیں اور اللہ نے یہ بھی فرمایا «ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن» کہ مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا چار عورتیں ہوتے ہوئے پانچویں سے بھی نکاح کرنا حرام ہے، جیسے اپنی ماں، بیٹی، بہن سے نکاح کرنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: Q5105]
اور امام احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے سفیان ثوری سے، کہا مجھ سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا خون کی رو سے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے (یعنی سسرال کی طرف سے) سات رشتے بھی۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی «حرمت عليكم أمهاتكم» آخر تک۔ اور عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی (لیلٰی بنت مسعود) دونوں سے نکاح کیا، ان کو جمع کیا اور ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسن بصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے دونوں چاچاؤں (یعنی محمد بن علی اور عمرو بن علی) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بن زید تابعی نے اس کو مکروہ جانا، اس خیال سے کہ بہنوں میں جلاپا نہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «وأحل لكم ما وراء ذلكم» کہ ان کے سوا اور سب عورتیں تم کو حلال ہیں۔ اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی (سالی کی بہن) اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور یحییٰ بن قیس کندی سے روایت ہے، انہوں نے شعبی اور جعفر سے، دونوں نے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کر دے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے۔ اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی۔ اور ابونصر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ حرام ہو جائے گی اور اس راوی ابونصر کا حال معلوم نہیں۔ اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے یا نہیں (لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے) اور عمران بن حصین اور جابر بن زید اور حسن بصری اور بعض عراق والوں (امام ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہو جائے گی۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا حرام نہ ہو گی جب تک اس کی ماں (اپنی خوشدامن) کو زمین سے نہ لگا دے (یعنی اس سے جماع نہ کرے) اور سعید بن مسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنے والے کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی (اس کو رکھ سکتا ہے) اور زہری نے کہا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ/حدیث: 5105]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5105
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک چیزوں کو بیان کیا ہے جنھیں ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کی وجہ سے بھی سات عورتیں حرام ہیں، لیکن آیت کریمہ میں سات نسبی عورتوں کا ذکر ہے، مثلاً: ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی لیکن سسرال کی طرف سے سات عورتوں کا ذکر نہیں، البتہ رضاعت کو سسرال سے تعبیر کریں تو سات عورتیں حسب ذیل ہیں: رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، ربیبہ، بہو، سالی اور شادی شدہ عورت۔ ان محرمات میں سات نسبی ہیں اور سات سببی، جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ (2) آیت کریمہ میں بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو نکاح میں رکھنا حرام ہے لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان دو عورتوں کو عقدِ نکاح میں جمع کیا جو ایک دوسری کے چچا کی بیٹی تھی۔ اس مراد محمد بن علی کی بیٹی اور عمر بن علی کی بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دوسری کےچچا کی بیٹی ہے۔ امام مالک اسے مکروہ خیال کرتے ہیں حرام قرار نہیں دیتے۔ حضرت جابر بن زید نے مکروہ کی علت قطع رحمی بیان کی ہے۔ بہرحال ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔ (3) اگر کسی نے سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی جیسا کہ جمہور ائمہ کا موقف ہے کیونکہ زنا حرام ہے اس کا اثر حلال چیز پر نہیں پڑتا، پھر شریعت میں نکاح کا اطلاق عقد پر ہوتا ہے محض وطی پر نہیں ہوتا، لیکن امام ثوری اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ سالی سے زنا کرنا بیوی کے حرام ہونے کا باعث ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو محل نظر قرار دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5105