اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «فاقرءوا ما تيسر منه» کہ ”پس پڑھو جو کچھ بھی اس میں سے تمہارے لیے آسان ہو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q5051]
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہا، ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شبرمہ نے بیان کیا (جو کوفہ کے قاضی تھے) کہ میں نے غور کیا کہ نماز میں کتنا قرآن پڑھنا کافی ہو سکتا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک سورت میں تین آیتوں سے کم نہیں ہے۔ اس لیے میں نے یہ رائے قائم کی کہ کسی کے لیے تین آیتوں سے کم پڑھنا مناسب نہیں۔ علی المدینی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبدالرحمٰن بن یزید نے، انہیں علقمہ نے خبر دی اور انہیں ابومسعود رضی اللہ عنہ نے (علقمہ نے بیان کیا کہ) میں نے ان سے ملاقات کی تو وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) کہ جس نے سورۃ البقرہ کے آخری کی دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اس کے لیے کافی ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 5051]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5051
حدیث حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں بطور قراءت کم سے کم دو آیتوں کا پڑھ لینا بھی کافی ہو گا حضرت امام بخاری کا منشاء اسی مسئلے کو بیان کرنا ہے اور یہی ما تیسر منه کی تفسیر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5051
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5051
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں کم ازکم دو یا تین آیات پڑھ لینا کافی ہوگا۔ 2۔ حدیث میں دو آیات کے کافی ہونے کے متعلق دو احتمال ہیں۔
۔ نماز میں کم از کم کتنی آیات پڑھنا کافی ہیں؟
۔ ایک دن یا رات میں مطلقاً کتنا قرآن پڑھنا کفایت کر جاتا ہے؟ بہر حال جز معین کی تحدید کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہے کیونکہ آیت کریمہ مطلق ہے جو اس سے کم کو شامل ہے۔ اور حدیث سے کم ازکم دو آیات کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5051