اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں فرمایا «ورتل القرآن ترتيلا»”اور قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھ۔“(یعنی ہر ایک حرف اچھی طرح نکال کر اطمینان کے ساتھ) اور سورۃ بنی اسرائیل میں فرمایا «وقرآنا فرقناه لتقرأه على الناس على مكث»”اور ہم نے قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے بھیجا کہ تو ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائے“ اور شعر و سخن کی طرح اس کا جلدی جلدی پڑھنا مکروہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس سورت میں جو لفظ «فرقناه» کا لفظ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے اسے کئی حصے کر کے اتارا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q5043]
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا ہم سے واصل احدب نے، ان سے ابووائل نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم ان کی خدمت میں صبح سویرے حاضر ہوئے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے (تمام) مفصل سورتیں پڑھ ڈالیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بولے جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں تم نے ویسے ہی پڑھ لی ہو گی۔ ہم سے قرآت سنی ہے اور مجھے وہ جوڑ والی سورتیں بھی یاد ہیں جن کو ملا کر نمازوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔ یہ اٹھارہ سورتیں مفصل کی ہیں اور وہ دو سورتیں جن کے شروع میں «حم.» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 5043]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5043
حدیث حاشیہ: 1۔ اس روایت کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج رات مفصل کی تمام سورتیں ایک رکعت میں پڑھی ہیں۔ اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یہ تو شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھتے چلے جانا ہے اور خراب کھجوروں کی طرح اسے بکھیر دینا ہے۔ (مسندأحمد: 418/1) علامہ خطابی نے اس کے معنی بیان کیے ہیں کہ جلدی جلدی، سوچ بچار اورتدبر کے بغیر پڑھنا ہے جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ 2۔ بہرحال قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے اورمخارج حروف اور اس کی صفات کا خیال رکھنا چاہیے۔ قرآن مجید کو جلدی جلدی اورکاٹ کاٹ کر پڑھنا غیر مستحسن ہے۔ (فتح الباري: 112/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5043