الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
8. بَابُ الْقُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
8. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں قرآن کے قاری (حافظ) کون کون تھے؟
حدیث نمبر: 5001
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ:" كُنَّا بِحِمْصَ، فَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُورَةَ يُوسُفَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَحْسَنْتَ، وَوَجَدَ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ، فَقَالَ: أَتَجْمَعُ أَنْ تُكَذِّبَ بِكِتَابِ اللَّهِ وَتَشْرَبَ الْخَمْرَ، فَضَرَبَهُ الْحَدَّ".
مجھ سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے بیان کیا کہ ہم حمص میں تھے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۃ یوسف پڑھی تو ایک شخص بولا کہ اس طرح نہیں نازل ہوئی تھی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی تھی اور آپ نے میری قرآت کی تحسین فرمائی تھی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اس معترض کے منہ سے شراب کی بدبو آ رہی ہے فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے متعلق جھوٹا بیان اور شراب پینا جیسے گناہ ایک ساتھ کرتا ہے۔ پھر انہوں نے اس پر حد جاری کرا دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ/حدیث: 5001]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأتجمع أن تكذب بكتاب الله وتشرب الخمر فضربه الحد
   مسندالحميديأحسنت

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5001 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5001  
حدیث حاشیہ:
یعنی وہاں کے حاکم سے کہلا بھیجا اس نے حد لگائی کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو حمص کی حکومت نہیں ملی تھی البتہ کوفہ کے حاکم وہ ایک عرصہ تک رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہی ہے کہ کسی شخص کے منہ سے شراب کی بدبو آئے تو اسے حد لگا سکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5001   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5001  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان کے ساتھ اس طرح مطابقت ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سورہ یوسف کی تلاوت کی تو کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تلاوت کیا تھا تو آپ نے میری قراءت کی تحسین فرمائی تھی۔

اس آدمی نے قرآن کریم کی تکذیب نہیں کی کیونکہ اسے جھٹلانے سے تو انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کے ایک حرف کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اس آدمی نے طرز ادا کا انکار کیا تھا کیونکہ اس نے کہا:
یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے قرآنی سورت کا انکار نہیں کیا تھا، چنانچہ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا:
میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں پڑھا تو آپ نے میری قراءت کو بنظر تحسین دیکھا تھا۔
اس آدمی نے جہالت قلت حفظ اور عدم ثبت کی وجہ سے ایسا کہا کیونکہ وہ اس وقت نشے کی حالت میں تھا۔
(فتح الباري: 63/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5001   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:112  
112- علقمہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لائے انہوں نے سورۂ یوسف کی تلاوت کی، تو ایک صاحب ان سے کہا: یہ اس طرح نازل نہیں ہوئی۔ راوی کہتے ہیں: تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارا ستیاناس ہو(راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تمہاری بربادی ہو، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسے تلاوت کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: تم نے ٹھیک پڑھا ہے۔۔‏‏‏‏ ابھی ان دونوں حضرات کی بحث جاری تھی کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس شخص سے شراب کی بو محسوس ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا تم شراب پیتے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:112]
فائدہ:
اس سے ثابت ہوا کہ اہل علم سے بعض دفعہ اختلاف کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں یا نشے کی حالت میں ہوتے ہیں، تو اس چیز کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ اختلاف کرنے والا کس حالت میں ہے۔ اگر وہ قرآن و حدیث کی تکذیب کر رہا ہو تو اس کو سخت ڈانٹ پلانی چاہیے۔ شراب پینے والے کو درے لگائے جائیں گے۔ اس کی حالت دیکھ کر حاکم وقت اور قاضی فیصلہ کرے گا کہ کتنے کوڑے لگائے جائیں، 40۔ 80 یا کم۔ شراب پینا حرام ہے۔ اگر فیصلہ عدالت میں پہنچ جا تا ہے تو قرآن و حدیث کے مطابق اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، اور اگر وہ فعل حد کو پہنچتا ہو تو حد کو نافذ کرنا فرض ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 112