الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
1. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: Q4930-2
يُقَالُ: مَعْنَاهُ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ وَهَلْ تَكُونُ جَحْدًا وَتَكُونُ خَبَرًا، وَهَذَا مِنَ الْخَبَرِ، يَقُولُ: كَانَ شَيْئًا فَلَمْ يَكُنْ مَذْكُورًا، وَذَلِكَ مِنْ حِينِ خَلَقَهُ مِنْ طِينٍ إِلَى أَنْ يُنْفَخَ فِيهِ الرُّوحُ، أَمْشَاجٍ: الْأَخْلَاطُ مَاءُ الْمَرْأَةِ وَمَاءُ الرَّجُلِ الدَّمُ وَالْعَلَقَةُ، وَيُقَالُ: إِذَا خُلِطَ مَشِيجٌ كَقَوْلِكَ خَلِيطٌ وَمَمْشُوجٌ مِثْلُ مَخْلُوطٍ، وَيُقَالُ: سَلَاسِلًا وَأَغْلَالًا: وَلَمْ يُجْرِ بَعْضُهُمْ، مُسْتَطِيرًا: مُمْتَدًّا الْبَلَاءُ وَالْقَمْطَرِيرُ الشَّدِيدُ يُقَالُ يَوْمٌ قَمْطَرِيرٌ وَيَوْمٌ قُمَاطِرٌ وَالْعَبُوسُ وَالْقَمْطَرِيرُ وَالْقُمَاطِرُ وَالْعَصِيبُ أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنَ الْأَيَّامِ فِي الْبَلَاءِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: النُّضْرَةُ فِي الْوَجْهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الْأَرَائِكِ السُّرُرُ، وَقَالَ الْبَرَاءُ: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا، وَقَالَ مَعْمَرٌ: أَسْرَهُمْ: شِدَّةُ الْخَلْقِ وَكُلُّ شَيْءٍ شَدَدْتَهُ مِنْ قَتَبٍ وَغَبِيطٍ فَهُوَ مَأْسُورٌ.
‏‏‏‏ لفظ «هل أتى» کا معنی آ چکا۔ «هل» کا لفظ کبھی تو انکار کے لیے آتا ہے، کبھی تحقیق کے لیے ( «قد» کے معنی میں) یہاں «قد» ہی کے معنی میں ہے۔ یعنی ایک زمانہ انسان پر ایسا آ چکا ہے کہ وہ ذکر کرنے کے قابل چیز نہ تھا، یہ وہ زمانہ ہے جب مٹی سے اس کا پتلا بنایا گیا تھا۔ اس وقت تک جب روح اس میں پھونکی گئی۔ «أمشاج‏» ملی ہوئی چیزیں یعنی مرد اور عورت دونوں کی منی اور خون اور پھٹکی اور جب کوئی چیز دوسری چیز سے ملا دی جائے تو کہتے ہیں «مشيج» جیسے «خليط‏.‏» یعنی «ممشوج» اور «مخلوط» بعضوں نے یوں پڑھا ہے «سلاسلا وأغلالا‏» (بعضوں نے «سلاسلا وأغلالا‏» بغیر تنوین کے پڑھا ہے) انہوں نے «سلاسلا‏» کی تنوین جائز نہیں رکھی۔ «مستطير‏» اس کی برائی پھیلی ہوئی۔ «قمطرير» سخت۔ عرب لوگ کہتے ہیں «يوم قمطرير ويوم قماطر» یعنی سخت مصیبت کا دن۔ «عبوس» اور «قمطرير» اور «قماطر» اور «قصيب» ان چاروں کا معنی وہ دن جس پہ سخت مصیبت آئے اور معمر بن عبیدہ نے کہا «شددنا أسرهم‏» معنی یہ ہے کہ ہم نے ان کی خلقت خوب مضبوط کی ہے۔ عرب لوگ جس کو تو مضبوط باندھے جیسے پالان، ہودج وغیرہ اس کو «مأسور‏» کہتے ہیں۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز فجر میں) اکثر پہلی رکعت میں سورۃ الم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۃ «هل أتى على الإنسان» کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4930-2]
حدیث نمبر: Q4930
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: جِمَالَاتٌ: حِبَالٌ، ارْكَعُوا: صَلُّوا لَا يَرْكَعُونَ لَا يُصَلُّونَ وَسُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَا يَنْطِقُونَ، وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ، الْيَوْمَ نَخْتِمُ: عَلَى أَفْوَاهِهِمْ، فَقَالَ إِنَّهُ ذُو أَلْوَانٍ مَرَّةً يَنْطِقُونَ وَمَرَّةً يُخْتَمُ عَلَيْهِمْ.
‏‏‏‏ اور مجاہد نے کہا «جمالات» جہاز کی موٹی رسیاں۔ «اركعوا» نماز پڑھو۔ «لا يركعون» نماز نہیں پڑھتے۔ کسی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا یہ قرآن مجید میں اختلاف کیا ہے ایک جگہ تو فرمایا کہ کافر بات نہ کریں گے۔ دوسری جگہ یوں ہے کہ کافر قسم کھا کر کہیں گے کہ ہم (دنیا میں) مشرک نہ تھے۔ تیسری جگہ یوں ہے کہ ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا قیامت کے دن کافروں کے مختلف حالات ہوں گے۔ کبھی وہ بات کریں گے، کبھی ان کے منہ پر مہر کر دی جائے گی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4930]
حدیث نمبر: 4930
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَإِنَّا لَنَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ، فَخَرَجَتْ حَيَّةٌ فَابْتَدَرْنَاهَا، فَسَبَقَتْنَا، فَدَخَلَتْ جُحْرَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وُقِيَتْ شَرَّكُمْ كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا".
ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ پر سورۃ والمرسلات نازل ہوئی تھی اور ہم اس کو آپ کے منہ سے سیکھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکل آیا۔ ہم لوگ اس کے مارنے کو بڑھے لیکن وہ بچ نکلا اور اپنے سوراخ میں گھس گیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے شر سے بچ گیا اور تم اس کے شر سے بچ گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4930]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارينزلت والمرسلات عرفا فإنا لنتلقاها من فيه إذ خرجت حية من جحرها فابتدرناها لنقتلها فسبقتنا فدخلت جحرها قال رسول الله وقيت شركم كما وقيتم شرها
   صحيح البخارينزلت عليه والمرسلات فتلقيناها من فيه وإن فاه لرطب بها خرجت حية قال رسول الله عليكم اقتلوها فابتدرناها فسبقتنا قال وقيت شركم كما وقيتم شرها
   صحيح البخارينزلت عليه والمرسلات فإنه ليتلوها وإني لأتلقاها من فيه وإن فاه لرطب بها وثبت علينا حية قال النبي اقتلوها فابتدرناها فذهبت قال النبي وقيت شركم كما وقيتم شرها
   صحيح البخاريأنزلت عليه والمرسلات وإنا لنتلقاها من فيه خرجت حية فابتدرناها فسبقتنا فدخلت جحرها قال رسول الله وقيت شركم كما وقيتم شرها
   صحيح البخارينحن مع النبي في غار بمنى إذ نزل عليه والمرسلات
   صحيح مسلمأنزلت عليه والمرسلات عرفا فنحن نأخذها من فيه رطبة خرجت علينا حية قال اقتلوها فابتدرناها لنقتلها فسبقتنا قال رسول الله وقاها الله شركم كما وقاكم شرها
   سنن النسائى الصغرىنزلت والمرسلات عرفا خرجت حية قال رسول الله اقتلوها فابتدرناها فدخلت في جحرها
   مسندالحميديلقد وقيتم شرها، ووقيت شركم