6. باب: آیت کی تفسیر ”یہی لوگ تو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو رہے ہیں، ان پر خرچ مت کرو، یہاں تک کہ (بھوکے رہ کر) وہ آپ ہی خود تتر بتر ہو جائیں حالانکہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان اور زمین کے خزانے ہیں لیکن منافقین یہ نہیں سمجھتے“۔
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن فضل نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان نقل کیا کہ مقام حرہ میں جو لوگ شہید کر دیئے گئے تھے ان پر مجھے بڑا رنج ہوا۔ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کو میرے غم کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے مجھے لکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے اللہ! انصار کی مغفرت فرما اور ان کے بیٹوں کی بھی مغفرت فرما۔ عبداللہ بن فضل کو اس میں شک تھا کہ آپ نے انصار کے بیٹوں کے بیٹوں کا بھی ذکر کیا تھا یا نہیں۔ انس رضی اللہ عنہ سے ان کی مجلس کے حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہما ہی وہ ہیں جن کے سننے کی اللہ تعالیٰ نے تصدیق کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4906]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4906
حدیث حاشیہ: حرہ مدینہ کا ایک میدان ہے، 63ھ میں جہاں پر یزیدیوں نے پڑاؤ کیا جب کہ مدینہ منورہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا۔ اس نے ایک فوج بھیجی جس نے مدینہ منورہ پہنچ کر وہاں قتل عام کیا۔ انصار کی ایک بہت بڑی تعداد اس حادثہ میں شہید ہو گئی تھی۔ حضرت انس ان دونوں بصرہ میں تھے جب ان کو اس کی خبر ملی تو بہت رنجیدہ ہوئے۔ حضرت زید بن ارقم کی تصدیق سے مراد یہی ہے کہ اللہ پاک نے منافقوں کے خلاف بیان دینے میں ان کی تصدیق کے لئے سورۃ منافقون نازل فرمائی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4906
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4906
حدیث حاشیہ: 1۔ حرّہ، مدینہ طیبہ کے آس پاس کے ایک علاقے کا نام ہے۔ اس کے میدان میں سیاہ پتھر پڑے ہیں۔ جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا تو وہاں قتل وغارت کا بازار گرم ہوا۔ یہ تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے لیکن اس کے متعلق مورخین نے بہت مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے۔ 2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بصرے میں تھے۔ انھیں اس واقعے کا بہت دکھ ہوا تو انھیں تسلی دینے کے لیے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفے سے خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے: جو لوگ اللہ کی طرف سے مغفرت یافتہ ہیں، ان پر زیادہ غم نہیں کرنا چاہیے۔ ایک روایت میں انصار کے پوتوں کے متعلق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائے مغفرت کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد: 139/3) 3۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس کے آخر میں منافقین اور مذکورہ آیت کے نزول واقعہ کی طرف واضح اشارہ ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی واقعہ پچھلے صفحات میں تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں منافقین اور ان کے کردار کا واضح تذکرہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کسی مصلحت کے پیش نظر کوئی سزا نہ دی، حالانکہ یہ لوگ قتل کے حقدار تھے۔ اس کی وضاحت ہم آئندہ حدیث کے فوائد میں کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4906