ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن عابس سے منصور بن معتمر کی حدیث کا ذکر کیا جو وہ ابراہیم سے بیان کرتے تھے کہ ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں کے ساتھ مصنوعی بال لگانے والیوں پر لعنت بھیجی تھی۔ عبدالرحمٰن بن عابس نے کہا کہ میں نے بھی ام یعقوب نامی ایک عورت سے سنا تھا وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ منصور کی حدیث کے مثل بیان کرتی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4887]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4887
حدیث حاشیہ: قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگا کر خوبصورتی پیدا کرنے کا رجحان آج کل بہت بڑھ رہا ہے اللہ مسلمان عورتوں کو ہدایت بخشے۔ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4887
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4887
حدیث حاشیہ: 1۔ ام یعقوب نامی عورت نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استدلال سن کر اس بات کا اقرار کیا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کردہ چیز اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیز ہے۔ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہی فہم تھا جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا، یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریعت کا حصہ ہے۔ 2۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو کتاب اللہ ہی کا حصہ شمار کرتے تھے، اس بنا پر جو کوئی سنت یا حدیث کی حجیت کا منکر ہے وہ دراصل قرآن کا منکر ہے۔ ا س مقام پر حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی خوبصورت بات کہی ہے، فرماتے ہیں: ”ہمارے اسلاف جب کوئی حدیث سنتے اور اس کی تصدیق کتاب اللہ میں بھی مل جاتی تو یہ نہیں کہتے تھے کہ یہ تو کتاب اللہ پر اضافہ ہے، اس لیے ہم اسے قبول نہیں کرتے اور نہ اس پر عمل کے روا دار ہی ہیں بلکہ ان کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ارشادات کی بہت زیادہ قدر قیمت تھی۔ حدیث سننے کے بعد اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ (إعلام الموقعین: 294/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4887