ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن یحییٰ ذہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا، ان سے وہیب نے کہا ہم سے خالد حذاء نے ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ آپ بدر کی لڑائی کے دن ایک خیمے میں تھے اور یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور وعدہ نصرت یاد دلاتا ہوں۔ اے اللہ! تیری مرضی ہے اگر تو چاہے (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو بھی ہلاک کر دے) پھر آج کے بعد تیری عبادت باقی نہیں رہے گی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس یا رسول اللہ! آپ نے اپنے رب سے بہت ہی الحاح و زاری سے دعا کر لی ہے۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے اور آپ خیمہ سے نکلے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی «سيهزم الجمع ويولون الدبر»”سو عنقریب (کافروں کی) جماعت شکست کھائے گی اور یہ سب پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4875]
اللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
اللهم إني أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن تشأ لا تعبد بعد اليوم فأخذ أبو بكر بيده فقال حسبك يا رسول الله ألححت على ربك وهو يثب في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر
أنشدك عهدك ووعدك اللهم إن شئت لم تعبد بعد اليوم أبدا فأخذ أبو بكر بيده وقال حسبك يا رسول الله فقد ألححت على ربك وهو في الدرع فخرج وهو يقول سيهزم الجمع ويولون الدبر بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر
اللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آت ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه عن منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه وقال يا نبي الله كفاك مناش
اللهم أنجز لي ما وعدتني اللهم آتني ما وعدتني اللهم إن تهلك هذه العصابة من أهل الإسلام لا تعبد في الأرض فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه من منكبيه فأتاه أبو بكر فأخذ رداءه فألقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه فقال يا نبي الله كفاك من
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4875
حدیث حاشیہ: 1۔ مسلمانوں سے انتقام لینے والے کفارِ قریش خود بدر کے دن اللہ تعالیٰ کے انتقام اور غضب کا شکار ہو گئے۔ سات سال قبل کی گئی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس جنگ میں ستر بڑے بڑے کافر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ اس اُمت کے فرعون ابوجہل کو انصار کے دوچھوٹے چھوٹے بچوں نے جہنم واصل کیا اور ستر کی تعداد میں ہی کافربھاگتے بھاگتے گرفتار ہوئے۔ 2۔ یہ سزا تو انھیں دنیا میں ملی اور جو اصل سزا انھیں قیامت کے دن ملنے والی ہے، وہ اس دنیوی سزا سے زیادہ دہشت ناک ہوگی اوردرد ناک بھی اس سے بڑھ کر ہوگی۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4875
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3081
´سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر۔` عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: ”اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔“ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3081]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی، اور فرمایا: ”میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے، تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی(الأنفال: 9) 2؎: یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3081
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4588
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب بدر کا دن آیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4588]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يَهْتفُ بِرََبِّه: بلند آواز سے، اللہ سے دعا کرنے لگے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گریہ و زاری اور دعا کو دیکھ کر مسلمان مطمئن ہو جائیں اور ان کے دل تقویت حاصل کر لیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو انہیں اطمینان ہو گیا کہ اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے گا اور اپنا وعدہ جلد پورا فرمائے گا، اس لیے عرض کیا، اے اللہ کے نبی! كَفَاكَ منَا شِدَّتكَ: آپ نے بلند آواز (نشید) سے جو دعا فرمائی ہے، وہ کافی ہے، اس لیے آپ بس کریں، خُطِمَ أَنفُهُ: اس کی ناک پر نشان پڑ گیا۔ (2) صناديد: صنديد کی جمع ہے، لیڈر، سردار۔ (3) هَوِيَ: پسند کیا۔ بتاكيت: میں رونے والی صورت بنا لوں گا، تاکہ آپ کی موافقت ہو سکے۔ (4) يُثخِنَ فِي الارض: زمین میں خون بہائے۔ فوائد ومسائل: غزوہ بدر 17 رمضان المبارک جمعہ کے دن پیش آیا اور یہ مسلمانوں کی کافروں سے باضابطہ پہلی جنگ تھی، جس میں ہر اعتبار سے ظاہری وسائل کے لحاظ سے مسلمان کم تر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور ان کے اطمینان قلب کے لیے ایک ہزار فرشتے نازل فرمانے کی بشارت فرمائی، تاکہ وہ ظاہری وسائل و اسباب میں فائق ہونے سے خوش ہو کر پوری جراءت و بسالت سے جنگ میں حصہ لیں، وگرنہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے بغیر بھی ان کو فتح یاب کر سکتا تھا، لیکن اس کی نصرت و مدد اسباب کے پردے میں آتی ہے، اس لیے ایک فرشتہ کی بجائے، جو ان کی تباہی کے لیے کافی تھا، ہزار فرشتے بھیجے اور ان میں سے بعض نے باقاعدہ جنگ میں بھی حصہ لیا ہے، جیسا کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہو رہا ہے، جمہور کا یہی موقف ہے، جب مسلمان فتح یاب ہو گئے اور ستر (70) مشرک قید کر لیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے سامنے دو صورتیں پیش کیں، ان کو قتل کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، لیکن اس صورت میں آئندہ سال اتنے ہی مسلمان شہید ہوں گے، ان دو صورتوں میں ایک کا انتخاب دراصل مسلمانوں کا امتحان تھا کہ وہ اپنی رائے سے کس کو اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ ازواج مطہرات کے امتحان و آزمائش کے لیے انہیں دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزادی دی تھی، جس کی تفصیل سورہ احزاب کی آیت، إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا۔ میں ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقعہ معراج میں دودھ اور شراب اور شہد پیش کیا گیا تھا تو آپ نے صحابہ سے رائے لی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی طبعی نرم دلی اور شفقت کی بناء پر یہ رائے دی کہ یہ قیدی اپنے بھائی بند ہیں، آپ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیں، اس نرم سلوک اور احسان کی بنا پر ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے اور یہ لوگ اور ان کے اتباع اولاد مسلمان ہو کر ہمارے دست بازو بنیں اور فدیہ کے مال سے ہم اپنی جنگی ضرورتیں پوری کر لیں گے، عام صحابہ نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طبعی رحم دلی اور شفقت و صلہ رحمی کی خاطر اس رائے کو پسند کیا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے پیش کی کہ یہ قیدی کفر کے امام اور کافروں کے لیڈر ہیں، ان کو ختم کر دیا جائے تو کفر و شرک کا زور ٹوٹ جائے گا، تمام مشرکوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو جائے گا اور ہم کفر و شرک اور ان لوگوں سے انتہائی نفرت و بغض کا اظہار کرنے کی خاطر، اپنے اپنے عزیز و اقارب کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں اور حضرت سعد بن معاذ نے بھی ان کی تائید کی، لیکن فدیہ والوں کی رائے پر عمل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کو (تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو سے تعبیر کیا، یہ غلطی بظاہر ایسی تھی کہ اس پر مواخذہ ہوتا اور سخت سزا ملتی اور وہ عذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا بھی گیا، لیکن اس بناء پر یہ عذاب روک دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اجتہادی غلطی پر سزا نہیں دیتا، آیت میں آمدہ تہدید و عتاب کی بناء پر مسلمان ڈر گئے اور مال غنیمت سے احتراز کرنے لگے، اس لیے مال غنیمت کے حلال و طیب ہونے کا اعلان کر دیا گیا، (تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر، حاشیہ عثمانی میں دیکھئے)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4588
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3953
3953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن اللہ سے عرض کی: ”اے اللہ! میں تجھے، تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں (اب اس وعدے کو پور کر)۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ ہو (تو پھر کفار کو غالب کر دے)۔“ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! بس یہی کافی ہے۔ اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا، چنانچہ آپ وہاں سے نکلے تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے: ”عنقریب یہ (مشرکین کی) جماعت شکست خوردہ ہو گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3953]
حدیث حاشیہ: اللہ پا ک نے جو وعدہ فرمایاتھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا۔ بدر کے دن اللہ تعالی نے پہلی بار ایک ہزار فرشتوں سے مدد نازل کی۔ پھر بڑھا کر تین ہزار کردئیے پھر پانچ ہزار فرشتوں سے مدد فرمائی۔ اسی لیے آیت کریمہ ﴿أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ﴾(الأنفال 9) سورہ آل عمران کی آیت کے خلاف نہیں ہے جس میں پانچ ہزار کا ذکرہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3953
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2915
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے ”اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔“ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: ”عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔“(راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ: : یعنی اے اللہ! آج تو اپنا وعدہ اپنے فضل و کرم سے پورا کردے۔ وعدہ یہ تھا کہ یا تو قافلہ آئے گا یا کافروں پر فتح ہوگی۔ آنحضرت ﷺ کو اللہ کے وعدہ پر کامل بھروسہ تھا۔ مگر مسلمانوں کی بے سرو سامانی اور قلت اور کافروں کی کثرت کو دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت آپ نے فرمایا لم نعبد بعد الیوم کا مطلب یہ کہ دنیا میں آج تیرے خالص پوجنے والے یہی تین سو تیرہ آدمی ہیں‘ اگر تو ان کو بھی ہلاک کردے گا تو تیری مرضی۔ چونکہ میرے بعد پھر کوئی پیغمبر آنے والا نہیں تو قیامت تک شرک ہی شرک رہے گا اور تجھے کوئی نہ پوجے گا۔ اللہ نے اپنے پیارے نبی کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور بدر میں کافروں کو وہ شکست دی کہ آئندہ کے لئے ان کی کمر ٹوٹ گئی اور اہل اسلام کی ترقی کے راستے کھل گئے۔ حدیث ہذا سے میدان جنگ میں زرہ پہننا ثابت ہوا۔ آج کل مشینی دور ہے لہٰذا میدان جنگ کے بھی قدیم اطوار بدل گئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2915
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4877
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: ”اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔“ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: ”عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ: قیامت کی سختیوں اور دوزخ کے عذابوں پر اشارہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4877
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2915
2915. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اپنے خیمے میں اللہ کے حضور یہ عرض کررہے تھے ”اے اللہ!میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں (کہ مسلمانوں کو فتح عطا فرما)۔ اے اللہ!اگر تیری یہی مرضی ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ ہو۔“ اتنے میں حضرت ابوبکر ؓنے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا: اللہ کے رسول ﷺ! بس یہ آپ کے لیے کافی ہے، آپ نے اپنے رب سے بہت الحاح اور زاری سے دعا کی ہے۔ آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے اور یہ پڑھتے ہوئے باہرنکلے: ”عنقریب کفار کی جماعت شکست سے دو چار ہوجائےگی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور تلخ تر چیز ہے۔“(راوی حدیث) خالد نے یہ اضافہ بیان کیا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بدر کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2915]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ معلوم تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اس لیے عرض کیا کہ ان جاں نثاروں کی ہلاکت کے بعد قیامت تک اس زمین پر شرک ہی شرک رہے گا۔ معبود حقیقی کو کوئی ماننے والا نہیں ہو گا۔ 2۔ امام بخاری ؒ اس س حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی زرہ تھی جسے آپ نے غزوہ بدر کے موقع پر پہنا لہٰذا میدان جنگ میں زرہ پہننا جائز ہے اور ایسا کرنا تو کل کے منافی نہیں۔ 3۔ زرہ لوہے کی اس قمیص کو کہتے ہیں جس کے پہننے سے میدان جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے پھر جسم پر نیزے یا برچھے یا تیر کا اثر نہیں ہوتا۔ قدیم زمانے میں دوران جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا آج کل زرہ کا استعمال ختم ہو چکا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2915
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3953
3953. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بدر کے دن اللہ سے عرض کی: ”اے اللہ! میں تجھے، تیرے عہد اور وعدہ کا واسطہ دیتا ہوں (اب اس وعدے کو پور کر)۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ ہو (تو پھر کفار کو غالب کر دے)۔“ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا دست مبارک پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! بس یہی کافی ہے۔ اللہ آپ کی ضرور مدد کرے گا، چنانچہ آپ وہاں سے نکلے تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے: ”عنقریب یہ (مشرکین کی) جماعت شکست خوردہ ہو گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3953]
حدیث حاشیہ: 1۔ سورہ قمر کی اس آیت میں ایک واضح پیش گوئی تھی۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت مسلمانوں کے ظاہری حالات ایسے دگرگوں تھے کہ اس پیش گوئی کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔ مسلمانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تھا۔ ان کامعاشرتی بائیکاٹ ہوچکا تھا۔ قریش کے ظلم وستم سے مجبور ہوکر 83 مسلمان (مردوخواتین) حبشہ ہجرت کرگئے تھے۔ ایسے حالات میں اس آیت کا نزول ہوا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مقام بدر میں اسے حرف بحرف پورا کردیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے میدان بدر میں جب اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کودیکھا کہ وہ تیاری اور نفری میں کفار سے کم ہیں توآپ نے گھاس سے تیار کیے گئے ایک جھونپڑے میں نہایت تضرع اور عاجزی سے دعا مانگی۔ اگرچہ آپ کو اللہ کے وعدے کے مطابق نصرت وتائید کا پورا یقین تھا لیکن آپ کی نگاہ اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی پر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو وعدہ پورا کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔ یہ مقام خوف، مقام رجاء کے آگے ہے اور مقام رجاء سے کہیں افضل ہے جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ مقام رجاء پر فائز تھے۔ اور بزعم خویش رسول اللہﷺ کو تسلی دے رہے تھے کہ اللہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا لیکن رسول اللہ ﷺ کا مقام اس سے کہیں آگے تھا کہ آپ کے سامنے اللہ کی عظمت وجلالت اورشان بے نیازی تھے۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ مقام خوف پر نظر رکھتے تھے جبکہ ابوبکر ؓ پر مقام رجاء یعنی امید کا غلبہ تھا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3953
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4877
4877. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بدر کے دن ایک خیمے میں تھے۔ آپ نے بایں الفاظ دعا کی: ”اے اللہ! میں تجھے تیرا عہد اور تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں، اے اللہ! اگر تو چاہے (تو مسلمانوں کو فنا کر دے) تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔“ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اپنے رب سے خوب گریہ و زاری سے دعا کر چکے ہیں، اب بس کیجیے۔ اس وقت آپ ﷺ زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ باہر تشریف لائے تو آپ کی زبان پر یہ آیت تھی: ”عنقریب اس جماعت کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے گی، بلکہ قیامت ان کے وعدے کا وقت ہے اور قیامت بہت بڑی آفت اور انتہائی کڑوی چیز ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4877]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں پیش گوئی کا وقت اور دوسری حدیث میں اس کا مصداق سامنے آنے کا وقت بیان ہوا ہے۔ 2۔ سرداران قریش کو دنیا و آخرت میں کس قدر ذلت سے دوچار ہونا پڑا اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس (24) مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی تاریک اور گندے کنویں میں پھینک دیے گئے، پھرآپ اس کے کنارے کھڑے ہوئے اور کفار قریش کے مقتول سرداروں کے نام لے کر انھیں آواز دینے لگے: ”اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں! اے فلاں!کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی؟بے شک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہوگیا،تو کیا تمہارے رب کاتمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب) تھا وہ بھی تمھیں پوری طرح مل گیا؟“(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3976)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4877