ہم سے محمد بن موسیٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوسفیان حمیری سعید بن یحییٰ بن مہدی نے بیان کیا، ان سے عوف نے، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ابوسفیان حمیری اکثر اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موقوفاً ذکر کرتے تھے کہ جہنم سے پوچھا جائے گا تو بھر بھی گئی؟ وہ کہے گی «هل من مزيد.» کہ کچھ اور بھی ہے؟ پھر اللہ تبارک تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھے گا اور کہے گی کہ بس بس۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4849]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4849
حدیث حاشیہ: قسطلانی نے اس مقام پر پچھلے متکلمین کی پیروی سے تاویل کی ہے اور کہا ہے، قدم رکھنے سے اس کا ذلیل کرنا مراد ہے یا کسی مخلوق کا قدم مراد ہے۔ اہل حدیث اس قسم کی تاویلیں نہیں کرتے بلکہ قدم اور رجل کو اسی طرح تسلیم کرتے ہیں جیسے سمع اور بصر اور عین اوروجہ وغیرہ کو اور ابن فورک نے لا علمی سے رجل کا انکار کیا اور کہا رجل کا لفظ ثابت نہیں ہے حالانکہ صحیحین کی روایت میں رجل کا لفظ بھی موجود ہے۔ ان حدیثوں سے جہمیوں کی جان نکلتی ہے اور اہلحدیث کو حیات تازہ حاصل ہوتی ہے۔ (وحیدی) وقال محي السنة القدم والرجل في ھذا الحدیث من صفات اللہ تعالیٰ فالإیمان بھا فرض والامتناع عن الخوض فیھا واجب فالمھتدي من سلک فیھا طریق التسلیم والخائض فیھا زائغ والمنکر معطل والمکیف مشبه لیس کمثله شيئ (حاشیہ بخاری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4849
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4849
حدیث حاشیہ: 1۔ قرآن کریم میں ہے: ’‘یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا۔ “(السجدة: 13) جب اس وعدے کا ایفا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جنوں اور انسانوں کو جہنم میں ڈال دے گا تو جہنم سے پوچھے گا: کیا تو بھر گئی ہے؟ وہ جواب دے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی تیرے دشمنوں کے لیے میرے دامن میں اب بھی گنجائش ہے۔ جہنم سے اللہ تعالیٰ کی گفتگو اور جہنم کا جواب دینا، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قطعاً بعید نہیں۔ اس سوال وجواب سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ جہنم بہت بڑی اور وسیع ہوگی کہ تمام جہنمی اس میں ڈال دیے جائیں گے لیکن اس میں مزید گنجائش ہوگی، دوسرے یہ کہ جہنم اس دن اس قدر غیظ وغضب میں بھڑک رہی ہوگی کہ وہ جواب میں کہے گی: جتنے مجھ میں داخل ہونے کے مستحق ہیں سب کو لے آؤ، میں آج کسی کو نہیں چھوڑوں گی۔ 2۔ کچھ لوگ اس مقام پر قدیم کی تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد اس کا ذلیل کرناہے یا کسی مخلوق کا قدم ہے لیکن ہم اہل سنت اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ قدم اور رِجل کو اس طرح تسلیم کرتے ہیں جیسے سمع، بصر، عین اور وجہ کو مانتے ہیں۔ اس کی مزید تفصیل کتاب التوحید حدیث: 7449۔ میں آئے گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4849