ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حجاج نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ قبیلہ بنی تمیم کے سواروں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کا امیر آپ قعقاع بن معبد کو بنا دیں اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا بلکہ اقرع بن حابس کو امیر بنائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ مقصد تو صرف میری مخالفت ہی کرنا ہے۔ عمر نے کہا کہ میں نے آپ کے خلاف کرنے کی غرض سے یہ نہیں کہا ہے۔ اس پر دونوں میں بحث چلی گئی اور آواز بھی بلند ہو گئی۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تقدموا بين يدى الله ورسوله» کہ ”اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے پہلے کسی کام میں جلدی مت کیا کرو۔“ آخر آیت تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4847]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4847
حدیث حاشیہ: مذکورہ ادب اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لیے سکھایا گیا ہے اور اس کے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں یا وہ لوگ جو آپ کے زمانے میں موجود تھے۔ اور یہ ادب اس لیے سکھایا گیا کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایک عام اور معمولی آدمی خیال نہ کریں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اللہ کے رسول اور اس کے مستند نمائندے ہیں جن کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع اور اعلیٰ ہے، تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے جہاں آپ کے ارشادات، معمولات اور آپ کا اخلاق و کردار بیان ہو رہا ہو، یا آپ کی احادیث پڑھی، پڑھائی جا رہی ہوں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4847
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5388
´شعراء کو ذمہ داری دینے کا بیان۔` عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بنو تمیم کے کچھ سوار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قعقاع بن معبد کو سردار بنائیے، اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اقرع بن حابس کو سردار بنائیے، پھر دونوں میں بحث و تکرار ہو گئی، یہاں تک کہ ان کی آواز بلند ہو گئی، تو اس سلسلے میں یہ حکم نازل ہوا ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے آگے مت بڑھو“(یعنی ان سے پہلے اپنی رائے مت پیش کرو) یہاں تک کہ یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5388]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھار بڑے بڑے عظماء اور جلیل القدر لوگوں سے بھی غلطی ہو جاتی ہے جیسا کہ امت محمدیہ کے افضل ترین انسان صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما سے خطا صادر ہوئی، تاہم انہوں نے ایسی سچی توبہ کی کہ مذکورہ واقعے کے بعد کبھی رسول اللہ ﷺ کے سامنے بلند آواز سے بات نہیں کی۔ (2) اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی عظیم قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے۔ کہ آپ کے سامنے کسی کو اونچی آواز سے بات کرنے کا حق بھی نہیں چہ جائیکہ آپ کے مقابلے میں کسی امتی کو درجۂ امامت پر فائز کر دیا جائے اور اس کی ہر بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لیا جائے اور ساری زندگی نہ صرف اس کی اندھا دھند تقلید میں گزار دی جائے بلکہ بلا دلیل اس کی بات تسلیم نہ کرنے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔ (3) اس حدیث میں مسئلۃ الباب کا صراحتاً ذکر نہیں اگر کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے کہ اقرع بن حابس بھی شاعری کرتے تھے تو پھر بات واضح ہے۔ واللہ أعلم۔ (4) قرآن مجید اور احادیث میں عموما! شعراء کی مذمت کی گئی ہے کیونکہ شعراء مبالغہ آرائی بلکہ جھوٹ، خوشامد اور تعلی کے عادی ہوتے ہیں اور شریعت ان اوصاف کو برا سمجھتی ہے۔ ویسے بھی حاکم کے لیے سنجیدہ طبع ہونا ضروری ہے اور یہ چیز پیشہ ور شعراء میں مفقود ہوتی ہے، اس لیے ظاہری طورپر سمجھ میں یہی آتا ہے کہ شعراء کو حاکم نہیں نبانا چاہیے مگر چونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاعر ایسا ہی ہو خصوصاً جو پیشہ ور شاعر نہ ہو، لہٰذا اگر امارت کا اہل ہو تو اسے امیر بنایا جا سکتا ہے۔ (5)”آگے نہ بڑھو“ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے قبل جلد بازی نہ کرو بلکہ ان کے فیصلے کا انتظار کرو جب تک رسول اللہ ﷺ خود مشورہ طلب نہ فرمائیں، تم خود بخود مشورہ نہ دو۔ امیر منتخب کرنا رسول اللہ ﷺ کا کام ہے نہ کہ تمہارا۔ (6)”صبر کرتے“ اشارہ بنو تمیم کے وفد کی طرف ہے کہ جب وہ آئے تھے تو انہوں نے باہر کھڑے ہو کر زور زور سے آوازیں دینی شروع کردی تھیں: يَا مُحمّد! اُخْرُجْ ظاہر ہے یہ معقول انداز نہیں تھا۔ نبیٔ اکرم ﷺ جیسی عظیم شخصیت کو اس طرح نہیں بلایا جا سکتا بلکہ ان کا انتظار کیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5388
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4367
4367. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ قعقاع بن معبد بن زرارہ کو امیر مقرر کر دیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا امیر بنا دیں۔ اس بات پر حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر سے کہا: تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میری غرض آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل کیں: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔" آخر آیت تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4367]
حدیث حاشیہ: ایک خطر ناک غلطی: حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو بکر کے جواب میں کہا ما أردت خلافك میرا ارادہ آپ کی مخالفت کر نا نہیں ہے صرف بطور مشورہ و مصلحت یہ میں نے عرض کیا ہے۔ اس کا ترجمہ، صاحب تفہیم البخاری نے یوں کیا ہے عمر ؓ نے کہا کہ ٹھیک ہے میرا مقصدصرف تمہاری رائے سے اختلاف کر نا ہی ہے۔ یہ ایسا خطر ناک ترجمہ ہے کہ حضرات شیخین کی شان اقدس میں اس سے بڑا دھبہ لگتا ہے جبکہ حضرات شیخین میں باہمی طور پر بہت ہی خلوص تھا۔ اگر کبھی کوئی موقع باہمی اختلافات کا آبھی گیاتو وہ اس کو فورا رفع دفع کر ليا کرتے تھے۔ خاص طور پر حضرت عمر ؓ حضرت صدیق اکبر ؓ کا بہت زیا دہ احترام کر تے تھے اور حضرت صدیق اکبر کا بھی یہی حال تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4367
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4367
4367. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ بنو تمیم کے چند سوار نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: آپ قعقاع بن معبد بن زرارہ کو امیر مقرر کر دیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: بلکہ آپ اقرع بن حابس کو ان کا امیر بنا دیں۔ اس بات پر حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت عمر سے کہا: تمہارا مقصد صرف مجھ سے اختلاف کرنا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میری غرض آپ کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ دونوں اتنا جھگڑے کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل کیں: "ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو۔" آخر آیت تک [صحيح بخاري، حديث نمبر:4367]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں وفد بنوتمیم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس غرض سے آئے تھے۔ اس کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ 2۔ آخر میں انھوں نے عرض کی کہ آپ ہم میں سے کسی کو امیر بنادیں۔ رسول اللہ ﷺ ابھی خاموش تھے کہ شیخین نے اپنی آراء کا اظہار شروع کردیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے قعقاع کا نام اس لیے پیش کیا کہ وہ ذرا نرم مزاج تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت عمر ؓ نے اقرع بن حابس کا نام پیش کیا کیونکہ نظام امارت چلانے میں یہ زیادہ ماہر تھے۔ دونوں حضرات نے بہتر ارادہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ انداز پسند نہ آیا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں یہ حضرات اپنی آراء کا اظہار کریں، اس پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی۔ اس کا نتیجہ یہ ہواکہ آئندہ جب عمر ؓ نبی اکرم ﷺ سے بات کرتے تو اس انداز سے جیسا کہ رازداری کی جاتی ہے۔ باربار انھیں کہا جاتا کہ تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی، دوبارہ کہو، چنانچہ اس کی وضاحت حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے ایک دوسری روایت میں کی ہے۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7302)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4367