مجاہد نے کہا «لا تقدموا» کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بڑھ کر باتیں نہ کرو۔ (بلکہ ادب سے «قال الله وقال الرسول» سنا کرو) یہاں تک کہ جو حکم اللہ کو دینا ہے وہ اپنے رسول کی زبان سے تم کو پہنچائے۔ «امتحن» کا معنی صاف کیا، پرکھ لیا۔ «لا تنابزوا بالالقاب» کا معنی یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد پھر اس کو کافر، یہودی یا عیسائی کہہ کر نہ پکارو۔ «لا يلتكم» تمہارا ثواب کچھ کم نہیں کرے گا سورۃ الطور میں «وما ألتنا» اس لیے ہے کہ ہم نے ان کے عمل کا ثواب کچھ کم نہیں کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4845-2]
حدیث نمبر: Q4845
تَشْعُرُونَ: تَعْلَمُونَ وَمِنْهُ الشَّاعِرُ.
«تشعرون» کا معنی جانتے ہو اس سے لفظ «شاعر» نکلا ہے یعنی جاننے والا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4845]
ہم سے یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ وہ سب سے بہتر افراد تباہ ہو جائیں یعنی ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کر دی تھی۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بنی تمیم کے سوار آئے تھے (اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے درخواست کی کہ ہمارا کوئی امیر بنا دیں) ان میں سے ایک (عمر رضی اللہ عنہ) نے مجاشع کے اقرع بن حابس کے انتخاب کے لیے کہا تھا اور دوسرے (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے ایک دوسرے کا نام پیش کیا تھا۔ نافع نے کہا کہ ان کا نام مجھے یاد نہیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کا ارادہ مجھ سے اختلاف کرنا ہی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ارادہ آپ سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ اس پر ان دونوں کی آواز بلند ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يا أيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم»”اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو“ الخ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا۔ انہوں نے اپنے نانا یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق اس سلسلے میں کوئی چیز بیان نہیں کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4845]
قدم عليه ركب بني تميم فأشار أحدهما بالأقرع بن حابس أخي بني مجاشع وأشار الآخر برجل آخر قال نافع لا أحفظ اسمه فقال أبو بكر لعمر ما أردت إلا خلافي قال ما أردت خلافك فارتفعت أصواتهما في ذلك فأنزل الله يأيها الذين آمنوا لا ترفعوا أصواتكم الآية قال ابن الزبير ف
قدم على النبي وفد بني تميم أشار أحدهما بالأقرع بن حابس التميمي الحنظلي أخي بني مجاشع وأشار الآخر بغيره فقال أبو بكر لعمر إنما أردت خلافي فقال عمر ما أردت خلافك فارتفعت أصواتهما عند النبي صلى الله
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4845
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 9ہجری میں بنو تمیم کا ایک وفد آیا اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقررفرما دیں۔ ابھی آپ خاموش تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرع بن حابس کا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قعقاع بن معبد کے امیر بنانے کا مشورہ دیا۔ اس دوران میں دونوں حضرات کی آوازیں بلند ہوگئیں تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ 2۔ ایک روایت میں ہے کہ آیت کے نازل ہونے کےبعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تو گویا ایک راز داں کی طرح بات کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سےپوچھنے کی ضرورت پڑتی۔ (صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنه، حدیث: 7302) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ ایک رازداں کی طرح آپ سے گفتگو کروں گا۔ (فتح الباري: 752/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4845
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7302
7302. سیدنا ابن ابو ملیکہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قریب تھا کہ دو بہترین آدمی ابو بکر وعمر ؓ ہلاک ہو جاتے۔ جس وقت نبی ﷺ کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب نے بنو مجاشع سے اقرع بن حابس تمیمی حنظلی کو ان کا امیر بنانے کا مشورہ دیا جبکہ دوسرے نے اس کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا: آپ کو مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: میری خواہش آپ کی مخالفت کرنا نہیں پھر نبی ﷺ کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ آیت اتری: ”اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔۔۔۔۔اجر عظیم ہے۔“ ابن ابو ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر ؓ کہتے تھے: سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا اس آیت کے بعد یہ انداز تھا کہ وہ نبی ﷺ سے کوئی بات کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے۔ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7302]
حدیث حاشیہ: اس حدیث کی مطابقت باب سے یہ ہے کہ اس میں جھگڑا کرنے کا ذکر ہے کیونکہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم دونوں تولیت کے باب میں میں جھگڑا کر رہے تھے یعنی کس کو حاکم بنایا جائے، یہ ایک علم کی بات تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7302
7302. سیدنا ابن ابو ملیکہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: قریب تھا کہ دو بہترین آدمی ابو بکر وعمر ؓ ہلاک ہو جاتے۔ جس وقت نبی ﷺ کے پاس بنو تمیم کا وفد آیا تو ان میں سے ایک صاحب نے بنو مجاشع سے اقرع بن حابس تمیمی حنظلی کو ان کا امیر بنانے کا مشورہ دیا جبکہ دوسرے نے اس کے علاوہ کسی اور کی طرف اشارہ کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے کہا: آپ کو مقصد صرف میری مخالفت کرنا ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: میری خواہش آپ کی مخالفت کرنا نہیں پھر نبی ﷺ کی موجودگی میں دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ آیت اتری: ”اے ایمان والو! تم اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔۔۔۔۔اجر عظیم ہے۔“ ابن ابو ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر ؓ کہتے تھے: سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا اس آیت کے بعد یہ انداز تھا کہ وہ نبی ﷺ سے کوئی بات کرتے تو اتنی آہستگی سے جیسے کوئی کان میں بات کرتا ہے۔ وہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:7302]
حدیث حاشیہ: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قائم کیا ہوا عنوان کئی اجزا پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک ”بلاوجہ جھگڑا کرنا“ ہے چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث میں مذکور جھگڑا اور اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اقرع بن حابس کو امیر بنانے کا مشورہ دیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ قعقاع بن معبد کو امیر بنایا جائے۔ اس دوران میں ان دونوں بزرگوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو فرشتہ وحی خدمت میں آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیات نازل ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی کو از خود مشورہ دینے کی اجازت نہیں اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اونچی آواز سے گفتگو کرنا ہی درست ہے۔ بہر حال یہ حدیث اپنے عنوان سے اس طرح مطابقت رکھتی ہے کہ اس میں تنازع کا ذکر ہے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اقرع بن حابس اور قعقاع بن معبد بن زراہ میں سے کس کو امیر بنایا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7302