مجاہد نے کہا «بورا» کے معنی ہلاک ہونے والوں کے ہیں۔ مجاہد نے یہ بھی کہا کہ «سيماهم في وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ پر سجدوں کی وجہ سے نرمی اور خوشنمائی ہوتی ہے اور منصور نے مجاہد سے نقل کیا «سيما» سے مراد تواضع اور عاجزی ہے۔ «اخرج شطأه» اس نے اپنا خوشہ نکالا۔ «فاستغلظ» پس وہ موٹا ہو گیا۔ «سوق» درخت کی نلی جس پر درخت کھڑا رہتا ہے، اس کی جڑ۔ «دائرة السوء» جیسے کہتے ہیں «رجل السوء.» ۔ «دائرة السوء» سے مراد عذاب ہے۔ «تعزروه» اس کی مدد کریں۔ «شطأه» سے بال کا پٹھا مراد۔ ایک دانہ دس یا آٹھ یا سات بالیں اگاتا ہے اور ایک دوسرے سے سہارا ملتا ہے۔ «فآزره» سے یہی مراد ہے، یعنی اس کو زور دیا، اگر ایک ہی بالی ہوتی تو وہ ایک نلی پر کھڑی نہ رہ سکتی۔ یہ ایک مثال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی ہے۔ جب آپ کو رسالت ملی آپ بالکل تنہا بےیار و مددگار تھے۔ پھر اللہ پاک نے آپ کے اصحاب سے آپ کو طاقت دی جیسے دانے کو بالیوں سے طاقت ملتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4833]
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے زید بن اسلم نے، ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ رات کا وقت تھا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا، تیسری مرتبہ بھی انہوں نے سوال کیا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، عمر کی ماں اسے روئے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تم نے تین مرتبہ سوال میں اصرار کیا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کسی مرتبہ جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنے اونٹ کو حرکت دی اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن مجید کی کوئی آیت نہ نازل ہو۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک پکارنے والے کی آواز میں نے سنی جو مجھے ہی پکار رہا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کوئی آیت نہ نازل ہو جائے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر آج رات ایک سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے اس ساری کائنات سے زیادہ عزیز ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے پھر آپ نے سورۃ الفتح کی تلاوت فرمائی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4833]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4833
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرسوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ تو خاموش ہی اس کا جواب ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باربار سوال کرنے پر اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ 2۔ واضح رہے کہ یہ سفر عمرہ حدیبیہ سے واپس آنے کا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم پر غم اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے کیونکہ کفار مکہ ہمارے عمرے اورقربانیوں کے درمیان حائل ہوئے تھے، تو ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو دنیا و ما فیھا سے عزیز قراردیا کیونکہ یہ نصرت اسلام، اتمام نعمت، اصحاب شجرہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے امور پر مشتمل ہے جو اہل اسلام کے لیے بشارت کا باعث ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا ذکر کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4833
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 572
´رات کو سفر کرنا جائز ہے` «. . . مالك عن زيد بن اسلم عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسير فى بعض اسفاره . . .» ”. . . اسلم (تابعی) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں جا رہے تھے اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 572]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 4177، من حديث مالك به] تفقه: ① بعض اوقات کسی مصروفیت یا عذر کی وجہ سے اگر سائل کے سوال کا جواب نہ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے ہر وقت ڈرنا چاہئے۔ ③ سورۂ فتح سفر میں نازل ہوئی تھی جبکہ آپ سواری پر سوار تھے۔ ④ رات کو سفر کرنا جائز ہے۔ ⑤ عالم پر ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہے لہٰذا اگر عالم جواب نہ دے تو سائل کو ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ ہوجانا چاہئے، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ فوری جواب دے۔ ⑥ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تقوی اور حب رسول کے اعلی مقام پر فائز تھے۔ ⑦ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بڑا مقام تھا۔ ⑧ سند حدیث سے اس کے مرسل ہونے کا گمان ہوتا ہے، ابوالحسن القابسی رحمہ اللہ نے اسی شبہے کا ازالہ کیا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 167
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3262
´سورۃ الفتح سے بعض آیات کی تفسیر۔` عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، میں نے آپ سے کچھ کہا، آپ خاموش رہے، میں نے پھر آپ سے بات کی آپ پھر خاموش رہے، میں نے پھر بات کی آپ (اس بار بھی) خاموش رہے، میں نے اپنی سواری کو جھٹکا دیا اور ایک جانب (کنارے) ہو گیا، اور (اپنے آپ سے) کہا: ابن خطاب! تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار اصرار کیا، اور آپ نے تجھ سے ایک بار بھی بات نہیں کی، تو اس کا مستحق اور سزاوار ہے کہ تیرے بارے میں کوئی آیت نازل ہو (اور تجھے سرزنش کی جائے) عمر بن خطاب کہتے ہیں: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3262]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: بیشک اے نبیﷺ!ہم نے آپﷺ کوایک کھلم کھلا فتح دی ہے (الفتح: 1)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3262
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5012
5012. حضرات اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کچھ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا لیکن اس مرتبی بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے (تیسری مرتبہ) پھر پوچھا تو(اس مرتبہ) بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے تین مرتبہ نہایت اصرار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا لیکن ہر بار تجھے کوئی جواب نہ ملا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو خوب دوڑایا حتیٰ کہ میں سب لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادی میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو با آواز بلند مجھے پکار رہا تھا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5012]
حدیث حاشیہ: اس سورت کی فضیلت کے لئے یہ حدیث کافی وافی ہے، اس کا تعلق صلح حدیبیہ سے ہے جس کے بعد فتوحات اسلامی کا دروازہ کھل گیا۔ اس لحاظ سے اس سورت کو ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5012
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4177
4177. حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ (اسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر (سفر حدیبیہ) میں تھے اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کوئی بات پوچھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا تب بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے تیسری بار پوچھا مگر پھر بھی آپ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر عمر بن خطاب ؓ نے خود سے مخاطب ہو کر کہا: اے عمر! تجھے تیری ماں روئے، تو نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے اصرار سے سوال کیا مگر آپ نے ایک دفعہ بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ کو ایڑی لگائی اور مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادا میری بابت قرآن میں کچھ حکم آ جائے۔ میں تھوڑی دیر ٹھہرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے پکار رہا تھا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4177]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ پر سورۃ انا فتحنا کا نزول ہو رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ کو یہ معلوم نہ ہوا اس لیے وہ با ر بار پوچھتے رہے مگر آنحضرت ﷺ خاموش رہے جس کو حضرت عمر ؓ نے آنحضرتﷺ کی خفگی پر محمول کیا۔ بعد میں حقیقت حال کے کھلنے پر صحیح کیفیت معلوم ہوئی۔ سورۃ انا فتحنا کا اس موقع پر نزول اشاعت اسلام کے لیے بشارت تھی اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس سورت کو ساری کائنات سے عزیز ترین بتلایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4177
4177. حضرت زید بن اسلم سے روایت ہے، وہ اپنے باپ (اسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر (سفر حدیبیہ) میں تھے اور حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ رات کا وقت تھا۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کوئی بات پوچھی لیکن رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا تب بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے تیسری بار پوچھا مگر پھر بھی آپ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ آخر عمر بن خطاب ؓ نے خود سے مخاطب ہو کر کہا: اے عمر! تجھے تیری ماں روئے، تو نے تین مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے اصرار سے سوال کیا مگر آپ نے ایک دفعہ بھی جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ کو ایڑی لگائی اور مسلمانوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادا میری بابت قرآن میں کچھ حکم آ جائے۔ میں تھوڑی دیر ٹھہرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے پکار رہا تھا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4177]
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ آیات صلح حدیبیہ سے واپسی کے وقت نازل ہوئیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ضجنان یاجحفہ یا کرام الغمیم میں ان کا نزول ہوا۔ یہ تینوں مقامات قریب قریب واقع ہیں۔ (فتح الباري: 742/8) 2۔ چونکہ آپ پر وحی کا نزول ہورہا تھا، اس لیے آپ نے حضر ت عمر ؓ کو ان کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ دراصل صلح حدیبیہ کی شرائط سے مسلمانوں میں بہت بے چینی تھی، خود حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دخول اسلام کے بعد مجھے اتنے شبہات پیش نہیں آئے جتنے صلح حدیبیہ کی شرائط تسلیم کرنے سے پیش آئے، انھوں نے اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے ایسی گفتگو کی جس کا انھیں بعد میں احساس ہوا۔ انھوں نے اس کی تلافی کے لیے کئی قسم کے اعمال خیر کیے۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731۔ 2732) بہرحال یہ سفر صلح حدیبیہ سے واپسی کا تھا، اسی صورت میں یہ حدیث مذکورہ عنوان سے مطابق ہوگی۔ 3۔ واضح رہے کہ آیت کریمہ میں فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4177
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5012
5012. حضرات اسلم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے آپ ﷺ سے کچھ پوچھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے پھر پوچھا لیکن اس مرتبی بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے (تیسری مرتبہ) پھر پوچھا تو(اس مرتبہ) بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ تب سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے (اپنے آپ سے) کہا: اے عمر! تیری ماں تجھے گم پائے، تو نے تین مرتبہ نہایت اصرار کے ساتھ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا لیکن ہر بار تجھے کوئی جواب نہ ملا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو خوب دوڑایا حتیٰ کہ میں سب لوگوں سے آگے بڑھ گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ مبادی میرے متعلق کوئی آیت نازل ہو جائے۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو با آواز بلند مجھے پکار رہا تھا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5012]
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ سفر صلح حدیبیہ کا تھا۔ اس میں واضح طور پر سورہ الفتح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس سورہ مبارکہ کو ایک خاص تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد فتوحات اسلامیہ کا ایک دروازہ کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ میرا آگے بڑھ جانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہو جانا نزول وحی سے رکاوٹ کا باعث نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ آگے اس لیے چلے گئے کہ بار بار سوال کرنے سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی کا باعث بنا ہوں۔ جب میں دور چلا جاؤں گا تو جو پریشانی آپ کو میری وجہ سے لاحق ہوئی تھی وہ دور ہو جائے گی۔ 2۔ بہر حال اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیال گزرا کہ میرے سوال کرنے میں بے ادبی ہو گئی ہے، اس لیے اونٹ بھگا کر لے گئے کہ کہیں میری اس حرکت پر کوئی آیت ہی نازل نہ ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول وحی میں مصروفیت کی وجہ سے جواب نہ دیا ہو، یہ بھی احتمال ہے کہ انھوں نے فراغت کے بعد جواب دیا ہو جس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکر نہ کیا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5012