الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ افسوس ہے تم پر، کیا تم مجھے یہ خبر دیتے ہو کہ میں قبر سے پھر دوبارہ نکالا جاؤں گا، مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں اور وہ دونوں والدین اللہ سے فریاد کر رہے ہیں (اور اس اولاد سے کہہ رہے ہیں) ارے تیری کم بختی تو ایمان لا بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو اس پر وہ کہتا کیا ہے کہ یہ بس اگلوں کے ڈھکوسلے ہیں“۔
حدیث نمبر: Q4827
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تُفِيضُونَ، تَقُولُونَ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَثَرَةٍ، وَأُثْرَةٍ، وَأَثَارَةٍ بَقِيَّةٌ مِنْ عِلْمٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ لَسْتُ بِأَوَّلِ الرُّسُلِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَرَأَيْتُمْ هَذِهِ الْأَلِفُ إِنَّمَا هِيَ تَوَعُّدٌ إِنْ صَحَّ مَا تَدَّعُونَ لَا يَسْتَحِقُّ أَنْ يُعْبَدَ وَلَيْسَ قَوْلُهُ أَرَأَيْتُمْ بِرُؤْيَةِ الْعَيْنِ إِنَّمَا هُوَ أَتَعْلَمُونَ أَبَلَغَكُمْ أَنَّ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ خَلَقُوا شَيْئًا.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «تفيضون‏» کا معنی جو تم زبان سے نکالتے ہو، کہتے ہو۔ بعضوں نے کہا «أثرة» اور «أثرة» (بضم ھمزہ) اور «أثارة» (تینوں قرآت ہیں) ان کا معنی باقی ماندہ علم ہے۔ (حدیث پر اسی سے «أثر» کا لفظ بولا گیا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا باقی ماندہ علم ہے) اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «بدعا من الرسل‏» کا یہ معنی ہے کہ میں ہی کچھ پہلا پیغمبر دنیا میں نہیں آیا۔ اوروں نے کہا «أرأيتم‏» (الاحقاف: 4) میں ہمزہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی اگر تمہارا دعویٰ صحیح ہو تو یہ چیزیں جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بتاؤ انہوں نے کچھ پیدا کیا ہے؟ «احقاف» قوم عاد کی زمین کا نام تھا جہاں ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ «احقاف»، «حقف» کی جمع ہے۔ «مطلق» ریت کے پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس قوم پر بادل کے ساتھ تیز ہوا کا عذاب آیا تھا جس سے سب ہلاک ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4827]
حدیث نمبر: 4827
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ لِكَيْ يُبَايَعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ: خُذُوهُ، فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ، فَلَمْ يَقْدِرُوا، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي سورة الأحقاف آية 17، فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے یوسف بن ماہک نے بیان کیا کہ مروان کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے حجاز کا امیر (گورنر) بنایا تھا۔ اس نے ایک موقع پر خطبہ دیا اور خطبہ میں یزید بن معاویہ کا باربار ذکر کیا، تاکہ اس کے والد (معاویہ رضی اللہ عنہ) کے بعد اس سے لوگ بیعت کریں۔ اس پر عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اعتراضاً کچھ فرمایا۔ مروان نے کہا اسے پکڑ لو۔ عبدالرحمٰن اپنی بہن عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں چلے گئے تو وہ لوگ پکڑ نہیں سکے۔ اس پر مروان بولا کہ اسی شخص کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی تھی «والذي قال لوالديه أف لكما أتعدانني‏» کہ اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تف ہے تم پر کیا تم مجھے خبر دیتے ہو۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہمارے (آل ابی بکر کے) بارے میں اللہ تعالیٰ نے کوئی آیت نازل نہیں کی بلکہ تہمت سے میری برات ضرور نازل کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4827]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4827 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4827  
حدیث حاشیہ:

رافضیوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وضاحت کو غلط معنوں میں استعمال کیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ (ثَانِيَ اثْنَيْنِ)
سے مراد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں ہیں۔
ان لوگوں نے انتہائی جہالت و حماقت کا ثبوت دیا ہے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مطلب یہ تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے بارے میں میری براءت کے علاوہ اور کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ویسے تو شان صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس حدیث کا پس منظر کھول کر بیان کردیں تاکہ روافضیوں کی طرف سے پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو سکے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ قول نقل کیا ہے جو گورنر مدینہ مروان بن حکم کی برہمی کا باعث بنا۔
انھوں نے کہا:
کیا تم شاہ روم ہرقل کی سنت کو زندہ کرنا چاہتے ہو کہ کوئی بادشاہ قبل از وقت اپنے بیٹوں کے لیے سر براہی کی بیعت لے؟ (فتح الباري: 8/733)

دراصل واقعات کچھ اس طرح ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرصہ دراز سے کوفہ جیسے سبائی مرکز کے گورنر چلے آرہے تھے۔
انھوں نے وہاں رہ کر اہل کوفہ کی نفسیات کا گہری نظر سے مطالعہ کیا کہ یہ لوگ آئے دن اسلامی حکومت کے خلاف خطر ناک سازشیں کرنے میں بڑے ماہر ہیں، سادہ لوح مسلمانوں کو سبز باغ دکھا کر اپنے بچھائے ہوئے دام ہم رنگ زمین میں پھانسنا، پھر ان کے ذریعے سے ملک میں خانہ جنگی کرانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ان پرفتن حالات میں انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ اپنی زندگی میں کسی شخص کو ولی عہد اور جانشیں بنا کر فتنہ و فساد کے دروازے کو شروع ہی میں بند کردیں تاکہ اسلامی حکومت کے لیے اجتماعیت کا مضبوط سہارا موجود ہے اس طرح حصول اقتدار کی خاطر ممکنہ رسہ کشی کا سد باب بھی ہو سکے گا اور انتشار پسندی کے لیے کسی شر انگیز کو موقع بھی نہیں مل سکے گا۔
اگرچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھ افراد پر مشتمل ایک انتخابی کمیٹی تشکیل دے چکے تھے اس کے باوجود حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ولی عہدی کے لیے ان کے بیٹے یزید کا نام پیش کیا لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی ایسا قدام کرنے پر تیار نہ تھے جس کے متعلق ارباب حل وعقد اور رائے عامہ کا واضح فیصلہ ان کے سامنے موجود نہ ہو اس لیے انھوں نے ولی عہدی کے معاملے کو استصواب رائے یعنی مشورہ کرنے پر موقوف رکھا چنانچہ حسب پروگرام دمشق میں اس کے متعلق ایک نمائندہ اجلاس ہوا جس میں اسلامی مملکت کے صوبوں کے معززین اور اصحاب رائے نمائندوں نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں عراقی وفد نے ولی عہدی کی تحریک پیش کی۔
پھر اجلاس میں موجود اکثریت نے اس تحریک کی تائید وحمایت کی لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا کہ مدینہ طیبہ کے کچھ لوگ میرے بیٹے یزید کی ولی عہدی پر خوش نہیں ہیں اس لیے آپ نے فرمایا:
جب تک اہل مدینہ اس تحریک ولی عہدی سے متفق نہ ہوں میں بطور ولی عہد یزید کے نام کا اعلان نہیں کرسکتا۔
آپ نے گورنر مدینہ مروان بن حکم کو لکھا۔
اب مجھے کمزوری نے آلیا ہے مجھے پتا نہیں کہ دنیا سے کب رخصت ہو جاؤں۔
مجھے یہ اندیشہ دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں میرے بعد یہ امت اسلامیہ پھر فتنہ و فساد کا شکار نہ ہو جائے۔
لہٰذا میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ اپنی زندگی ہی میں ارباب حل وعقد سے مشورے کے بعد کسی کو اپنا ولی عہد مقرر کر جاؤں۔
اس سلسلے میں آپ کا مشورہ چاہتا ہوں۔
آپ اس بات کو مدینہ طیبہ کے معززین کے سامنے پیش کریں اور اتفاق سے جو رائے سامنے آئے اس کے متعلق مجھے آگاہ کریں۔
(محاضرات التأریخ الإسلامي: 117/2)
چنانچہ گورنر مدینہ مروان بن حکم نے اکابر مدینہ کو جمع کر کے حالات سے آگاہ کیا اور موجود ہ حالات میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارادے کا تذکرہ کرتے ہوئے یزید کی ولی عہدی کے متعلق گفتگو کی جو اس حدیث میں موجود ہے اس اجلاس میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی بھی قابل ذکر شخصیت نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق کوئی اختلاف نہ کیا حتی کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی پردے کے پیچھے سے اس بات کی وضاحت تو فرمائی کہ مذکورہ آیت کریمہ ان کے بھائی عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل نہیں ہوئی لیکن انھوں نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق کوئی اختلاف نہ کیا۔
بہر حال مروان بن حکم نے اس اجلاس کی مکمل رپورٹ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیش کردی امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے از راہ احتیاط اس ایک اختلافی آواز کو بھی محسوس کیا آپ خوب سمجھتے تھے کہ اس طرح کی اکائیاں بھی کسی خطرناک اقدام کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں چنانچہ آپ نے حجاز مقدس کا سفر اختیار فرمایا تاکہ مناسک حج کی ادائیگی کے ساتھ مدینہ طیبہ پہنچ کر یزید کی ولی عہدی کا معاملہ وہاں کے معززین اور اصحاب الرائے کے سامنے پیش کیا جائے۔
وہاں پہنچ کر ایک بھر پور اجلاس ہوا بالآخر کسی اختلاف کے بغیر تمام اہل مدینہ نے یزید کی ولی عہدی کو منظور کر لیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس اجلاس کے متعلق فرماتے ہیں میں اپنی بہن حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔
اس وقت ان کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا، میں نے عرض کی:
آپ لوگوں کا حال دیکھ رہی ہیں کہ اس معاملے (حکومت)
میں میری کوئی حیثیت نہیں رکھی گئی۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا جاؤ لوگ تمھارے انتظار میں ہیں مجھے اندیشہ ہے کہ تمھارے اس اجلاس سے باہر رہنے کی صورت میں کوئی اختلاف نہ پیدا ہو جائے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس وقت تک آپ کو نہ چھوڑا جب تک انھوں نے اجلاس میں شرکت نہ کر لی۔
جب(اجلاس سے)
لوگ منتشر ہو گئے تو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطاب فرمایا کہ اب بھی اگر کوئی شخص اس معاملے میں کچھ بولنا چاہتا ہے تووہ اپنا سر اونچا کرے ہم اس سے اور اس کے والد سے اس امر(امارات)
کے زیادہ حق دار ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4108)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں اجلاس میں موجود تھے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے خطاب کے آخری جملے سے ان کا ذہن صاف کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آخری جملے کو اپنے متعلق تعریض خیال کیا لیکن قائم شدہ اتفاق میں رخنہ پڑ جانے کے خوف سے آپ وہاں خاموش رہے۔
اس واقعے کے بعد جب آپ نے حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ نے اس موقع پر جواب کیوں نہ دیا؟اس وقت حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
میں نے اپنی نشست چھوڑ کر یہ کہنا چاہا تھا کہ آپ سے زیادہ حق اس کا ہے جس نے آپ سے اور آپ کے والد سے اسلام کے لیے جنگ لڑی لیکن مجھے ڈر لگا کہ کہیں میرے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے۔
جو اختلاف و انتشاراور خون ناحق کا ذریعہ بن جائے۔
پھر ایسا نہ ہو کہ میری بات کو غلط رنگ دے دیا جائے اس لیے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں جنت میں انعام و اکرام کے پیش نظر خاموش رہا۔
یہ وضاحت سن کر حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا اور نامناسب اقدام سے بچا لیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4108)
اگرچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں ابتدائی طور پر کچھ تحفظات تھے، لیکن بعد میں آپ نے یزید کی بیعت کر کے ان الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کیا وہم نے اس شخص (یزید)
کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کے نام پر کی ہے اور میرے علم میں کوئی عذر اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ ایک شخص سے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے۔
پھر اس سے جنگ کی جائے۔
اے اہل مدینہ! تم میں سے جو کوئی اس کی بیعت کو توڑ کر کسی دوسرے سے بیعت کرے گا۔
تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔
بلکہ میں اس سے الگ رہوں گا۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7111)

بہر حال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے دس سال پہلے یزید کے لیے لوگوں سے بیعت ولی عہدی لی اور یہ بیعت مکمل ہونے کے بعد ان الفاظ میں دعا فرمائی:
اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کے فضل و کمال کی وجہ سے اپنا ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس بلند مقام پر پہنچا جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس معاملے میں اس کی مدد فرما اور اگر اس بات پر مجھے اس محبت نے آمادہ کیا ہے جو ایک باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے جبکہ وہ اس منصب کا اہل نہیں تو اس منصب تک پہنچنے سے پہلے ہی اسے موت دےدے۔
(تاریخ الإسلام للذھبي: 267/2)
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا ان الفاظ میں نقل فرمائی۔
اے اللہ! تو جانتا ہے کہ اگر میں نے یزید کو اس کی اہلیت و قابلیت کی وجہ سے ولی عہد بنایا ہے تو اس ولی عہدی کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے اور اگر میں نے صرف پدری محبت سے ایسا کیا ہے تو اسے پورا نہ ہونے دے۔
(البدایة والنھایة: 80/8)

ہم اس مقام پر یہ وضاحت بھی کر دینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ صحیح بخاری کے فوائد میں تاریخی حقائق بیان کرنا ہمارے منہج کے خلاف ہے۔
اگر عہد حاضر کی ایک نامور شخصیت نے اس تحریک ولی عہدی کی آڑ میں صحابہ دشمنی کا ثبوت نہ دیا ہوتا تو ہمیں اتنا طویل تاریخی نوٹ لکھنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
وہ لکھتے ہیں:
یزید کی ولی عہدی کے لیے ابتدائی تحریک کسی صحیح جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لیےدوسرے بزرگ کے مفاد سے اپیل کر کے اس تجویز کو جنم دیا۔
۔
۔
(خلافت و ملوکیت، ص: 150)
اللہ تعالیٰ ان کی لغزش معاف فرمائے اور اپنے ہاں اسے رحمت سے نوازے کیونکہ وہ بزرگ شخصیت اب اللہ کے پاس پہنچ چکی ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4827