5. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جن لوگوں نے (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر) تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سا گروہ ہے تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے، ان میں سے ہر شخص کو جس نے جتنا جو کچھ کیا تھا گناہ ہوا اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے لیے سزا بھی سب سے بڑھ کر سخت ہے“۔
حدیث نمبر: Q4749
أَفَّاكٌ كَذَّابٌ.
«أفاك» کے معنی جھوٹا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4749]
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا «والذي تولى كبره» یعنی اور جس نے ان میں سے سب سے بڑھ کر حصہ لیا تھا اور مراد عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4749]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4749
حدیث حاشیہ: اس جھوٹ کا بنانے والا اور اسے مشتہر کرنے والا یہی منافق عبداللہ بن ابی تھا اس حرکت کے سبب وہ ملعون ٹھہرا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4749
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4749
حدیث حاشیہ: بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ اس آیت سے مراد حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں لیکن راجح یہی موقف ہے جو مذکورہ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ اس سے مراد رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ہے جو لوگوں کو جمع کرتا ابھارتا اور مزے لے کر اس کا تذکرہ کرتا پھر نہایت چالاکی کے ساتھ اپنا دامن بچا کردوسروں سے اس کی اشاعت کراتا مسلمان اس کا پروپیگنڈا سن کرتردد میں مبتلا ہو جاتے بعض خاموش ہو جاتے اور اہل ایمان کی اکثریت ایسی تھی کہ یہ باتیں سن کر اسے جھٹلا دیتے تھے اس واقعے کی تفصیل آگے بیان ہو گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4749