الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَيَقُولُ الأَشْهَادُ هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ} :
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا، خبردار رہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر“۔
حدیث نمبر: Q4685-2
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ: {وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ} وَاسْأَلِ {الْعِيرَ} يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ {وَأَصْحَابَ} الْعِيرِ {وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا} يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَاهُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. {أَرَاذِلُنَا} سُقَاطُنَا. {إِجْرَامِي} هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْيَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. {مُجْرَاهَا} مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ: {مَرْسَاهَا} مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَ{مَجْرَاهَا} مِنْ جَرَتْ هِيَ وَ{مُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا} مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ.
‏‏‏‏ «وإلى مدين» یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا «واسأل القرية» یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ «واسأل العير» یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ «وراءكم ظهريا» یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں «ظهرت بحاجتي» اور «جعلتني ظهريا» اس جگہ «ظهري» کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ «أراذلنا» ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ «إجرام»، «أجرمت» کا مصدر ہے یا «جرمت ثلاثى» مجرد۔ «فلك» اور «فلك» جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ «مجراها» کشتی کا چلنا یہ «أجريت» کا مصدر ہے۔ اسی طرح «مرساها»، «أرسيت» کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کر دیا) بعضوں نے «مرساها» بفتح میم پڑھا ہے «رست» سے۔ اسی طرح «مجراها» بھی «جرت» سے ہے۔ بعضوں نے «مجريها»، «مرسيها» یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ «راسيات» کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4685-2]
حدیث نمبر: Q4685
وَاحِدُ الأَشْهَادِ شَاهِدٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَأَصْحَابٍ.
‏‏‏‏ «لأشهاد»، «شاهد» کی جمع ہے جیسے «صاحب» کی جمع «أصحاب» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4685]
حدیث نمبر: 4685
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، قَالَ: بَيْنَا ابْنُ عُمَرَ يَطُوفُ، إِذْ عَرَضَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَوْ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّجْوَى، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يُدْنَى الْمُؤْمِنُ مِنْ رَبِّهِ"، وَقَالَ هِشَامٌ: يَدْنُو الْمُؤْمِنُ حَتَّى يَضَعَ عَلَيْهِ كَنَفَهُ، فَيُقَرِّرُهُ بِذُنُوبِهِ، تَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا، يَقُولُ: أَعْرِفُ، يَقُولُ: رَبِّ أَعْرِفُ، مَرَّتَيْنِ، فَيَقُولُ: سَتَرْتُهَا فِي الدُّنْيَا، وَأَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ، ثُمَّ تُطْوَى صَحِيفَةُ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُونَ أَوِ الْكُفَّارُ، فَيُنَادَى عَلَى رُءُوسِ الْأَشْهَادِ، هَؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ، أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ سورة هود آية 18، وَقَالَ شَيْبَانُ: عَنْ قَتَادَةَ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے صفوان بن محرز نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نام نامعلوم آپ کے سامنے آیا اور پوچھا: اے ابوعبدالرحمٰن! یا یہ کہا کہ اے ابن عمر! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کے متعلق کچھ سنا ہے (جو اللہ تعالیٰ مؤمنین سے قیامت کے دن کرے گا)۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ مومن اپنے رب کے قریب لایا جائے گا۔ اور ہشام نے «يدنو المؤمن» (بجائے «يدنى المؤمن» کہا) مطلب ایک ہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا ایک جانب اس پر رکھے گا اور اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا کہ فلاں گناہ تجھے یاد ہے؟ بندہ عرض کرے گا، یاد ہے، میرے رب! مجھے یاد ہے، دو مرتبہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تمہارے گناہوں کو چھپائے رکھا اور آج بھی تمہاری مغفرت کروں گا۔ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے لوگ یا (یہ کہا کہ) کفار تو ان کے متعلق محشر میں اعلان کیا جائے گا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ اور شیبان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے صفوان نے بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4685]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريسترت عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاريسترت عليك في الدنيا فأنا أغفرها لك اليوم
   صحيح البخاريسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم فيعطى كتاب حسناته وأما الكافر والمنافقون فيقول الأشهاد هؤلاء الذين كذبوا على ربهم ألا لعنة الله على الظالمين
   صحيح البخارييدنى المؤمن من ربه
   صحيح مسلمسترتها عليك في الدنيا وإني أغفرها لك اليوم فيعطى صحيفة حسناته وأما الكفار والمنافقون فينادى بهم على رءوس الخلائق هؤلاء الذين كذبوا على الله
   سنن ابن ماجهسترتها عليك في الدنيا وأنا أغفرها لك اليوم ثم يعطى صحيفة حسناته وأما الكافر فينادى على رءوس الأشهاد

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4685 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4685  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ بندہ جب اپنے گناہوں کا اعتراف کرے گا تو اسے خیال آئے گا کہ میں تو ہلاک ہو گیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کی بخشش کی خوشخبری سنائے گا پھر اس کے ہاتھ میں نیکیوں کاصحیفہ تھما دیا جائے گا۔
(صحیح البخاری المظالم حدیث41۔
24)

رہے کافر لوگ جو دوسروں کی راہ سے روکتے اور اس میں کج روی تلاش کرتے تھے نیز وہ آخرت کے بھی منکر تھے ان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"یہ لوگ زمین میں اللہ کو بے بس کرنے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے مقابلے میں ان کا کوئی حامی ہو گا۔
انھیں دوگنا عذاب دیا جائے گا۔
کیونکہ نہ تو وہ حق بات سننا گوارا کرتے تھے اور نہ خود انھیں کچھ سوجھتا ہی تھا۔
" (ھود: 11۔
20)


انھیں دوگنا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے یہی گمراہی کی میراث اپنی اولاد کے لیے اور دوسرے پیروکاروں کے لیے چھوڑ گئے جن کے عذاب سے حصہ رسدی ان کے کھاتے میں بھی جمع ہوتا رہا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4685   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث183  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صفوان بن محرز مازنی کہتے ہیں: اس اثناء میں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ تھے، اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے، اچانک ایک شخص سامنے آیا، اور اس نے کہا: ابن عمر! آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «نجویٰ» (یعنی اللہ کا اپنے بندے سے قیامت کے دن سرگوشی کرنے) کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مومن اپنے رب سے قیامت کے دن قریب کیا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا، (تاکہ اس سرگوشی سے دوسرے باخبر نہ ہو سکیں)، پھر اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 183]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے۔
اہل سنت کا اس مسئلہ میں یہ موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے، جس سے چاہتا ہے، جو چاہتا ہے، کلام فرماتا ہے اور مخاطب اس کلام کو سنتا ہے اور یہ امر حروف و اصوات کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔
جن آیات و احادیث میں اللہ کے کلام کرنے کا ذکر آیا ہے، علمائے حق ان کی تاویل نہیں کرتے، بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے ہیں، البتہ اللہ کی صفت کلام کو مخلوق کے کلام سے تشبیہ نہیں دیتے۔

(2)
اللہ کا کلام اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ صرف ایک فرد سنے، جیسے اس حدیث میں ہے، اسی لیے اسے سرگوشی فرمایا گیا ہے یا جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے ﴿وَقَرَّبْنٰهُ نَجِيًّا﴾ (مریم: 56)
 ہم نے اسے سرگوشی کے لیے اپنا قرب بخشا۔
اور اس انداز سے بھی ہو سکتا ہے کہ زیادہ افراد سنیں، جیسے جنت میں اللہ تعالیٰ تمام مومنین سے فرمائے گا کہ میں آئندہ کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔

(3)
اس میں اللہ کی عظیم رحمت کا تذکرہ ہے، جس کی وجہ سے مومن اللہ سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں، نیز مجرموں کی رسوائی بھی مذکور ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ سے ڈرتے ہیں کیونکہ ایمان میں امید اور خوف دونوں شامل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7015  
صفوان بن محرز رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا نجوی (سر گوشی) کے بارے میں،آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انھوں نے کہا میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے۔"قیامت کے دن مومن کو اپنے رب عزوجل کے قریب کیا جائے گا حتی کہ وہ اس پر اپنا پہلو جو اس کے شایان شان ہے رکھے گا، یعنی دوسروں سے اوٹ میں کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا، سو فرمائے گا،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7015]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں،
گناہ گار مسلمان دو قسم کے ہیں:
(1)
وہ مسلمان جن کے گناہوں کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے،
ان کی دو قسمیں ہیں۔
(الف)
جن کے گناہ کو اللہ نے دنیا میں چھپایا،
ان کے گناہوں کی آخرت میں بھی پردہ پوشی ہوگی۔
(ب)
جن کے گناہ دنیا میں لوگوں کے سامنے عیاں ہو گئے،
ان کی پردہ پوشی نہیں ہو گی۔
(2)
وہ مسلمان جن کے گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے،
ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔
(الف)
ان کی برائیاں،
نیکیوں سے زیادہ ہوں گی،
یہ آگ میں جائیں گے،
پھر سزا بھگت کر یا سفارش سے دوزخ سے نکال لیے جائیں گے۔
(ب)
وہ مسلمان جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی،
یہ ایک دوسرے کو بدلہ دے کر،
جنت میں چلے جائیں گے۔
(تکملہ ج (6)
ص (40)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7015   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2441  
2441. حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2441]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو کتاب الغصب میں امام بخاری ؒ ا س لیے لائے کہ آیت میں جو یہ وارد ہے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے تو ظالموں سے کافر مراد ہیں اور مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہے۔
اس سے ظلم کا بدلہ گو ضرور لیا جائے گا، پر وہ ملعون نہیں ہو سکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2441   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6070  
6070. حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو سرگوشی کے متعلق کیا فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: تم میں سے ایک شخص اللہ کے قریب ہوگا، اللہ تعالٰی اپنا بازو اس پر رکھ کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا جی ہاں اللہ تعالٰی، پھر فرمائے گا۔ تو نے یہ برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا۔ جی ہاں۔ اللہ تعالٰی اس سے اقرار کرانے کے بعد فرمائے گا میں نے دینا میں تیرے گناہوں پرپردہ دیے رکھا اور آج میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6070]
حدیث حاشیہ:
اللہ کا ایک نام ستیر بھی ہے، یعنی گناہوں کا چھپا لینے والا، دنیا اور آخرت میں وہ بہت سے بندوں کے گناہوں کو چھپا لیتا ہے۔
بعون اللہ منھم۔
آمین۔
مثل مشہور ہے کہ ایک تو چوری کرے اوپر سے سینہ زوری کرے۔
اگر آدمی سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو اسے چھپا کر رکھے، شرمندہ ہو۔
اللہ سے توبہ کرے، نہ یہ کہ ایک ایک سے کہتا پھرے کہ میں نے فلاں گناہ کیا ہے، یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے۔
یہ حدیث بھی ان احادیث صفات میں سے ہے، اس میں اللہ کے لئے کتف بازو ثابت کیا گیا ہے، جیسے سمع اور بصر اور ید اور عین اور وجہ وغیرہ۔
اہل حدیث اس کی تاویل نہیں کرتے اور یہی مسلک حق ہے، تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ کتف سے حجاب رحمت مراد ہے یعنی اللہ اسے اپنے سایہ عاطفت میں چھپا لے گا مگر یہ تاویل کرنا ٹھیک نہیں ہے، کتف کے معنی بازو کے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6070   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7514  
7514. صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7514]
حدیث حاشیہ:
اس سند کےلانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع دفع ہو جائے۔
حدیث کی اس باب سے مطابقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے سرگوشی کرنا مذکور ہے۔
حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے اس کے بعد اب کہاں گئے وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے نہ اس میں آوا ز ہے نہ حروف ہیں۔
فرمائیے یہ قدیم صفت موقع بموفع کیونکر حادث ہوتی رہتی ہے۔
اگر کہتے ہیں کہ اس کا تعلق حادث ہے جیسے سمع اوربصرہ وغیرہ ہیں تو مسموع اور مبصر ذات الہی کا غیر ہے۔
اس لیے تعلق حادث ہو سکتا ہے یہاں تو کلام اسی کی صفت ہے اس کا غیر نہیں ہے۔
اگر اس کے کلام میں آواز اور حروف نہیں ہیں توپھر پیغمبروں نےاس کا کلام کیوں کرسنا اور متواتر احادیث میں جو آیا ہے کہ اس نے دوسرے لوگو‎ں سے بھی کلا م کیا اور خصوصا مومنوں سےآخرت میں کلام کرے گا تویہ کلام جب اس میں آواز اورحروف نہیں ہیں کیوں کر سمجھ میں آیا اور آسکتا ہے۔
افسوس ہے کہ یہ (متکلمین)
لوگ اتنا علم پڑھ کر پھر اس مسئلہ میں بے وقوفی کی چال چلے اورمعلوم نہیں کیا کیا تاویلات کرتے ہیں۔
اس قسم کی تاویلیں درحقیقت صفت کلام کا انکار کرنا ہے پھر سرے سے یوں نہیں کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی نہیں کرتا جیسے جعد بن درہم مردود تھا۔
آج کل بھی اکثر نیچری مغرب زدہ نام نہاد مسلمان ایسی ہی باتیں کرتےہیں۔
ھدا ھم اللہ إلیٰ صراط مستقیم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7514   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2441  
2441. حضرت صفوان بن محرز مازنی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کاہاتھ تھامے ان کے ساتھ جا رہا تھا، اچانک ایک شخص سامنے سے آکر کہنے لگا: آپ نے"نحوی" یعنی (قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی بندے سے) سرگوشی کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سناہے: اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بُلالے گا اور اس پر اپنا پردہ عزت ڈال کر اسے چھپا لے گا، پھر فرمائے گا: تجھے اپنا فلاں گناہ معلوم ہے؟تجھے اپنا فلاں گناہ یادہے؟تو وہ کہے گا: جی ہاں، یارب!مجھے معلوم ہے حتیٰ کہ اس سے تمام گناہوں کااقرار کرالے گا۔ اور وہ شخص اپنے دل میں خیال کرے گا کہ وہ اب تباہ ہوچکا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھ پر دنیا میں پردہ ڈالا، آج تیرے لیے ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں، پھر نیکیوں کا ریکارڈ اس کے ساتھ میں دے دیا جائے گا لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2441]
حدیث حاشیہ:
(1)
نجٰوی کے معنی سرگوشی کے ہیں جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے فرمائے گا۔
یہ اس کا خاص فضل و کرم ہو گا کہ وہ درپردہ بندے کو اس کے گناہ بتائے گا اور اس سے ان کا اعتراف کرائے گا، پھر انہیں معاف کر دے گا۔
اس حدیث میں جن گناہوں کا ذکر ہے اس سے مراد حقوق العباد نہیں بلکہ وہ گناہ مراد ہیں جو صرف اللہ اور اس کے بندے کو معلوم ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا، نیز آیت کریمہ میں ظلم پیشہ لوگوں سے مراد کافر اور منافق ہیں، مسلمان اگر ظلم کرے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں ہو گا۔
اس سے ظلم کا بدلہ تو ضرور لیا جائے گا لیکن وہ ملعون قرار نہیں پائے گا۔
(2)
مجموعۂ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی ایک قسم تو وہ ہے جو دنیا میں در پردہ تھی، قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ انہیں پوشیدہ رکھ کر معاف کر دے گا، پھر کچھ گناہ ایسے ہوں گے جو علانیہ سرزد ہوئے ہوں گے جن کے ضمن میں حقوق العباد بھی ہیں جن پر گرفت ہو سکتی ہے۔
باقی رہے کفارومنافقین ان پر تو سب کے سامنے کھلے عام لعنت ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2441   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6070  
6070. حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ ﷺ کو سرگوشی کے متعلق کیا فرماتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: تم میں سے ایک شخص اللہ کے قریب ہوگا، اللہ تعالٰی اپنا بازو اس پر رکھ کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا جی ہاں اللہ تعالٰی، پھر فرمائے گا۔ تو نے یہ برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا۔ جی ہاں۔ اللہ تعالٰی اس سے اقرار کرانے کے بعد فرمائے گا میں نے دینا میں تیرے گناہوں پرپردہ دیے رکھا اور آج میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6070]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس سے گناہوں کا اقرار کرائے گا تو وہ یقین کرے گا کہ میں تو ہلاک ہو گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ گناہوں پر پردہ پوشی بلکہ اپنی طرف سے معافی کی بشارت دے گا۔
نیز لوگوں کے سامنے اسے رسوائی سے بچانے کے لیے صرف نیکیوں کا اعمال نامہ اسے دیا جائے گا۔
اس کے برعکس کافر اور منافق کو سرعام ذلیل ورسوا کرے گا اور اس کے خلاف گواہی دینے والے کہیں گے:
یہی وہ لوگ تھے جو اپنے رب پر جھوٹ باندھتے تھے۔
سن لو! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2441) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تمام احادیث پر نظر رکھتے ہوئے بڑی جامع بحث کی ہے کہ اہل ایمان میں سے گناہ گاروں کی دو قسمیں ہوں گی:
ایک وہ گناہ گار جن کے گناہ صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہوں گے اور دوسرے وہ گناہ گار جنھوں نے حقوق العباد میں کوتاہی کی ہوگی۔
جن کے گناہ صرف حقوق اللہ سے متعلق ہوں گے ان کی پھر دوقسمیں ہیں:
ایک وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پردہ ڈلا ہوگا، انھیں تو معاف کر دیا جائے گا۔
اور دوسرے وہ جنھوں نے اپنے گناہوں کو نشر کیا ہوگا، انھیں معاف نہیں کیا جائے گا۔
جن کے گناہ حقوق العباد سے متعلق ہوں گے، ان کی بھی دوقسمیں ہوں گی:
ایک وہہ جن کی برائیاں، نیکیوں سے زیادہ ہوں گی تو انھیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
وہ سزا پا کر یا سفارش سے جہنم سے نکل آئیں گے۔
دوسرے وہ جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، ان سے بدلہ لے کر جنت میں داخلے کی اجازت مل جائے گی جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(فتح الباري: 600/10، وصحیح البخاري، المظالم، حدیث2440) (3)
بہرحال انسان کوچاہیے کہ وہ اپنے گناہوں کی خود ہی پردہ دری نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جن برائیوں سے اللہ نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرو اگر کوئی ان کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ انھیں نشرنہ کرے بلکہ اللہ کے پردے میں انھیں چھپائے رکھے۔
(المستدرك للحاکم: 272/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6070   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7514  
7514. صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7514]
حدیث حاشیہ:

اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سر گوشی کے انداز میں گفتگو کرے گا۔
اسے قریب کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ گفتگو کوئی اور نہ سنے تاکہ بندے کو ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھا جائے یہ گفتگو مبنی بر حقیقت اور الفاظ و حروف پر مشتمل ہو گی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے جس میں آواز اور حروف نہیں ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے تو بندہ اس سر گوشی کو کیسے سن سکے گا؟ اللہ تعالیٰ اہل جہنم سے بھی گفتگو کرے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہ ایک ایسے کافرسے کہے گا جسے بہت ہلکا سا عذاب دیا جارہا ہو گا۔
اگر تجھے دنیا اور اس کا ساز و سامان دے دیا جائے تو کیا اسے فدیے کے طور پر دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کر لے گا؟ وہ جواب دے گا۔
میں اس کے لیے تیار ہوں۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
جب تو اپنے باپ کی پشت میں تھا تو تجھ سے بہت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تونے (ڈھٹائی سے)
شرک ہی کیا۔
(صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7083(2805)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک اور سند بیان کی ہے تاکہ راوی حدیث صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع کا احتمال ختم ہو جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7514