ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے، انہوں نے بکر بن عمرو سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص (حبان یا علاء بن عرار نامی) نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا» کہ ”جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں“ الخ، اس آیت کے بموجب تم (علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا «فقاتلوا التي تبغيإ» ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ ”ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا (واہ، واہ) یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو (کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں (جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو) اور علی رضی اللہ عنہ تو (سبحان اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4650]
الله يقول وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة قال ابن عمر قد فعلنا على عهد رسول الله إذ كان الإسلام قليلا كان الرجل يفتن في دينه إما يقتلونه وإما يوثقونه حتى كثر الإسلام فلم تكن فتنة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4650
حدیث حاشیہ: یعنی حضرت علی ؓ کا تقرب اور علو مرتبہ تو ان کے گھر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے گھر سے ان کا گھر ملا ہوا ہے اور قرابت قریب یہ کہ وہ آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ کے داماد بھی تھے۔ ایسے صاحب فضیلت کی نسبت بد اعتقادی کرنا کم بختی کی نشانی ہے۔ شاید یہ شخص خوارج میں سے ہوگا جو حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ دونوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ (وحیدی) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ جنگ خانگی ہے۔ رسول کریم ﷺ کے زمانے میں کافروں سے ہماری جنگ دنیا کی حکومت یا سرداری کے لیے نہیں بلکہ خالص دین کے لیے تھی تاکہ کافروں کا غرور ٹوٹ جائے اور مسلمان ان کی ایذاء سے محفوظ رہیں تم تو دنیا کی سلطنت اور حکومت اور خلافت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہو اور دلیل اس آیت سے لیتے ہو جس کا مطلب دوسرا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کو بے محل استعمال کرنے والوں نے اسی طرح امت میں فتنے اورفساد پیدا کئے اور ملت کے شیرازے کو منتشر کر دیا ہے۔ آج کل بھی بہت سے نام نہاد عالم بے محل آیات واحادیث کواستعمال کرنے والے بکثرت موجود ہیں جو ہر وقت مسلمانوں کو لڑاتے رہتے ہیں۔ ھداھم اللہ إلیٰ صراط مستقیم۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے اس طرز عمل میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں، کاش! ہم غور کر سکیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4650
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4650
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس جو آدمی آیا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان آپس میں جنگ وقتال میں ہیں اور آپ کسی جنگ میں حصہ نہیں لیتے بلکہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ آپ کو ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا موقف یہ تھا کہ جو امور نظم ملک سے متعلق ہیں ان میں جنگ وقتال درست نہیں بلکہ ایسے حالات میں علیحدگی اختیار کرنے میں عافیت ہے۔ 2۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آدمی خارجی تھا کیونکہ خوارج کو حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ سے عداوت تھی۔ حضرت ابن عمر ؓ نے دونوں حضرات کی خوبیاں ذکر کر کے اس شخص کا رد کیا اور بتایا کہ حضرت عثمان ؓ کے جنگ اُحد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ لیکن تم لوگ انھیں معاف نہیں کرتے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کردیا ہے۔ " (آل عمران: 155/3) حضرت علی ؓ کی رسول اللہ ﷺ سے نسبی قرابت اور قرابت محل (رہائش) دونوں کو بیان فرمایا یعنی وہ ہر اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے قریبی ہیں لیکن تمھیں یہ قرب گوارا نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4650
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4651
4651. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابن عمر ؓ ہمارے پاس تشریف لائے تو ایک صاحب نے ان سے دریافت کیا: فتنے کی لڑائی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تجھے فتنے کے متعلق علم ہے کہ وہ کیا ہے؟ حضرت محمد ﷺ مشرکین سے جنگ کرتے تھے جبکہ ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4651]
حدیث حاشیہ: تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4651
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7095
7095. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہاَ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس آئے تو ہم نے امید کی کہ وہ ہم سے کوئی عمدہ حدیث بیان کریں گے۔ اس دوران میں ایک آدمی ہم سے پہلے ان کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدالرحمن! ہمیں فتنے کے دور میں جنگ و قتال کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔“ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے تیری ماں روئے! کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہوتا ہے؟ حضرت محمد ﷺتو (فتنہ ختم کرنے کے لیے) مشرکین سے جنگ کرتے تھے ان کے نزدیک مسلمانوں کا دین اسلام میں داخل ہونا فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری طرح ملک گیری کے لیے نہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7095]
حدیث حاشیہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ خیال تھا کہ جب مسلمانوں میں آپس میں فتنہ ہو تو لڑنا درست نہیں۔ دونوں طرف والوں سے الگ رہ کر خاموش گھر میں بیٹھنا چاہئے۔ اسی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے شریک رہے نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔ اس شخص نے گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو جواب دیا کہ اللہ تو فتنہ رفع کرنے کا حکم دیتا ہے اور تم فتنے میں لڑنا منع کرتے ہو۔ آیت (وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ)(البقرة: 193) میں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی مشرکوں سے لڑو تاکہ دنیا میں توحید پھیلے۔ اسلامی لڑائی صرف توحید پھیلانے کے لئے ہوتی ہے۔ فتنے سے متعلق لفظ مشرق والی حدیث کی مزید تشریح پارہ 30 کے خاتمہ پر ملاحظہ کی جائے۔ (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7095
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4651
4651. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ابن عمر ؓ ہمارے پاس تشریف لائے تو ایک صاحب نے ان سے دریافت کیا: فتنے کی لڑائی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تجھے فتنے کے متعلق علم ہے کہ وہ کیا ہے؟ حضرت محمد ﷺ مشرکین سے جنگ کرتے تھے جبکہ ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4651]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ تمھاری موجود ہ جنگ خانگی اور حصول اقتدار کے لیے ہے اور رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ہماری جنگ خالص دین کی سر بلندی کے لیے تھی تاکہ کافروں کا غرور خاک میں مل جائے۔ اور مسلمان ان کی تکلیفوں سے محفوظ رہیں لیکن تم لوگ تو دنیا کی سلطنت اور حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہو اور بطور دلیل قرآنی آیات کو بے محل پیش کرتے ہو۔ 2۔ بلا شبہ قرآن مجید کی آیات کو بے محل استعمال کرنے والوں نے اسی طرح امت میں فتنے اور فساد پیدا کیے اور ملت کے شیرازے کو منتشر کردیا جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے خوارج کے متعلق فرمایا کہ یہ لوگ مخلوق میں انتہائی بدتر ہیں کیونکہ جو آیات کفار و مشرکین کے متعلق نازل ہوئی تھیں وہ انھیں مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، استابة المرتدین، باب: 65)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4651
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7095
7095. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہاَ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہمارے پاس آئے تو ہم نے امید کی کہ وہ ہم سے کوئی عمدہ حدیث بیان کریں گے۔ اس دوران میں ایک آدمی ہم سے پہلے ان کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا: اے ابو عبدالرحمن! ہمیں فتنے کے دور میں جنگ و قتال کے متعلق کوئی حدیث بیان کریں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”تم ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔“ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تجھے تیری ماں روئے! کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہوتا ہے؟ حضرت محمد ﷺتو (فتنہ ختم کرنے کے لیے) مشرکین سے جنگ کرتے تھے ان کے نزدیک مسلمانوں کا دین اسلام میں داخل ہونا فتنہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی جنگ تمہاری طرح ملک گیری کے لیے نہ تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7095]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے یہ تھی کہ فتنے کے زمانے میں مسلمانوں کا آپس میں جنگ کرنا جائز نہیں۔ آیت کریمہ میں "فتنہ" سے مراد کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ کفر ختم کرنے کے لیے تھی اور اب اسلام کاغلبہ ہے، کفر مغلوب ہو چکا ہے لیکن تمہاری جنگ کفر کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ ملک گیری اور لوگوں میں فساد برپا کرنے کے لیے ہے۔ میرے نزدیک ایسی جنگ جائز نہیں، اس لیے اس میں اتنا حصہ نہیں لیتا۔ 2۔ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ جب ایک گروہ کے متعلق پتا چل جائے گا کہ وہ باغی ہے تو ایسے حالات میں اسے اطاعت کی طرف لانے کے لیے جنگ کرنا فتنہ نہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ”اور اگراہل ایمان کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو،پھر اگر ان میں کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرتا ہے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ “(الحجرات 9) ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس دو آدمی آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں کا قتل ہو رہا ہے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی جلیل ہیں، آپ اس کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرتے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ”تم ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔ “(البقرہ 193) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ہم نے لڑائی کر کے فتنہ ختم کر دیا تھا اورہمارے دور میں اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو چکا تھا، لیکن تمہاری لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ فتنہ مزید بھڑکے اور دین بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے ہو جائے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4513)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7095