20. باب: آیت کی تفسیر ”سوائے ان لوگوں کے جو مردوں اور عورتوں بچوں میں سے کمزور ہیں کہ نہ کوئی تدبیر ہی کر سکتے ہیں اور نہ کوئی راہ پاتے ہیں کہ ہجرت کر سکیں“۔
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «إلا المستضعفين» کے متعلق فرمایا کہ میری ماں بھی ان ہی لوگوں میں تھیں جنہیں اللہ نے معذور رکھا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4597]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4597
حدیث حاشیہ: شروع اسلام میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچنا ضروری قرار دیا گیا تھا۔ کچھ کمزور لوگ ہجرت نہ کر سکے اور مکہ ہی میں مصیبتوں کی زندگی گزارتے رہے، ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4597
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4597
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابن عباس ؓ کی والدہ کا نام لبابہ بنت حارث تھا اور یہ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث ؓ کی ہمشیر ہیں۔ ابتدائے اسلام میں مسلمان ہو چکی تھیں۔ اپنی طبعی کمزوری کی وجہ سے مکے میں رہائش رکھنے پر مجبور تھیں۔ ان کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ بھی تھے۔ یہ دونوں کمزور اورناتواں ہونے کی وجہ سے معذوروں میں شامل تھے۔ حضرت لبابہ کی کنیت ام الفضل ہے اور سیدہ خدیجہ ؓ کے بعد یہ پہلی خاتون ہیں جو مسلمان ہوئیں۔ ایک روایت میں ہے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: میں اور میری والدہ ان کمزور لوگوں میں سے تھے جو مکہ مکرمہ میں نجات اور خلاصی نہیں پاسکتے تھے۔ (النساء: 97: 4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4597