ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ان سے سفیان نے، ان سے میسرہ نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت «كنتم خير أمة أخرجت للناس»”تم لوگ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو“ اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر (لڑائی میں گرفتار کر کے) لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4557]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4557
حدیث حاشیہ: یہ گرفتاری ان کے حق میں نعمت عظمیٰ ہو جاتی ہے۔ وہ مسلمان ہو کر ثواب ابدی اور سعادت سرمدی حاصل کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم لوگ امتوں کا سترواں عدد پورا کرنے والے ہو۔ تم سے پہلے 69 امتیں گزر چکی ہیں۔ ان سب امتوں میں اللہ کے نزدیک تم بہترین امت ہو، ان امتوں میں تاریخ انسانی کی ساری قومیں داخل ہیں، وہ ہندی ہوں یا سندھی یا عربی یا انگریزی سب ہی اس میں داخل ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4557
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4557
حدیث حاشیہ: 1۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ نے رسول اللہﷺ سے بھی بیان کی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر تعجب کرتا ہے جو بیڑیوں میں جکڑے جنت میں داخل ہوں گے۔ " (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 3010) سیدنا عمرؓ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو فرمادیتا: (اَنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ) تب ہم سب بہترین اُمت بن جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے (كُنْتُمْ) فرمایا ہے، چنانچہ یہ خصوصیت صرف اصحاب محمد ﷺ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے ساتھ ہے۔ 2۔ اس تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے ہے، یعنی پوری اُمت میں سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بہترین لوگ ہیں، جبکہ حضرت ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مُراد وہ صحابہ ہیں جنھوں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ (فتح الباري: 283/8) اس تفسیر کے مطابق یہ آیت مزید خاص ہوجاتی ہے۔ اس کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ صحابہ کرام میں وہ حضرات سب سے زیادہ بہترہیں جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس آیت کو اپنے عموم ہی پر رہنے دیا جائے اور اس سے پوری اُمت محمدیہ مراد لی جائے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعبؓ، عکرمہ، اور مجاہدؒ وغیرہ کے اقوال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد پوری امت ہے باقی رہے(كَانَ) کے معنی تو اس قسم کے مواقع پر (كَانَ) کا ذکر اور حذف برابر ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ﴾(الأنفال: 8: 26) دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلا﴾(الأعراف۔ 86: 7) ان دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہیں، نیز حدیث میں ہے: "میری اُمت تمام اُمتوں سے بہتر بنائی گئی ہے۔ " (مسند أحمد: 383/5) اس لیے بہترہے کہ (خَيْرَ أُمَّةٍ) سے پوری اُمت محمدیہ مراد لی جائے لیکن مشروط طور پر جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ 3۔ اس اُمت کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ جہاد کرکے لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہیں جس سے انھیں دنیا وآخرت کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔ اس بات کا اشارہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4557