3. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا“۔
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا، انہوں نے ہشیم سے سنا، انہوں نے کہا ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا، حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» کہ ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4551]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4551
حدیث حاشیہ: آیت میں بتلایا گیا ہے کہ معاملہ داری میں جھوٹی قسمیں کھانا اور اس طرح کسی کو نقصان پہنچانا کسی مرد مومن کا کام نہیں ہے۔ مسلمانوں کو اس عادت سے بچنا چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4551
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4551
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث ابن مسعود سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کنویں کے معاملے میں حضرت اشعث ؓ اور ان کے مخالف کے متعلق نازل ہوئی جبکہ حضرت عبداللہ بن ابواوفیٰ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بازار میں ایک شخص نے سامان فروخت کرنے کی غرض سے جھوٹی قسم اٹھائی تو اس شخص کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کے نازل ہونے کا سبب دونوں واقعات ہوسکتے ہیں۔ 2۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت اشعث ؓ کے معاملے میں مذکورہ آیت نازل ہوچکی ہولیکن حضرت عبداللہ بن ابواوفیٰ ؓ کو بازار میں سامان فروخت کرنے کے واقعے کے بعد اس کی اطلاع ہوئی ہوتو انھوں نے سمجھا کہ یہ آیت اس واقعے سے متعلق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہر ایک نے اپنے اپنے علم کے مطابق بیان فرمایا۔ (فتح الباري: 269/8) واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4551