ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «إصرا» عہد وعدہ کے معنی میں ہے اور بولتے ہیں «غفرانك» یعنی ہم تیری مغفرت مانگتے ہیں، تو ہمیں معاف فرما دے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4546]
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں خالد حذاء نے، انہیں مروان اصفر نے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے، کہا کہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ انہوں نے آیت «إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه» کے متعلق بتلایا کہ اس آیت کو اس کے بعد کی آیت ( «لا يكلف الله نفسا إلا وسعها») نے منسوخ کر دیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4546]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4546
حدیث حاشیہ: پہلی آیت کا مفہوم یہ تھا کہ تمہارے نفسوں کے وساوس پر بھی مواخذہ ہوگا۔ یہ معاملہ صحابہ کرام ؓ پر بہت شاق گزرا اور واقعی شاق بھی تھا کہ وساوس نفسانی دلوں میں پید اہوتے رہتے ہیں۔ آیت ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ نے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور محض وساوس نفسانی پر گرفت نہ ہونے کا اعلان کیا گیا جب تک ان کے مطابق عمل نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4546
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4546
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث میں جس آیت کو منسوخ کہا گیا ہے وہ ایک خبر پر مشتمل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری اور باطنی خیالات کا محاسبہ کرے گا لیکن خبر تو منسوخ نہیں ہوتی جیسا کہ اصول فقہ میں صراحت ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ خبر محض واقعی منسوخ نہیں ہوتی بلکہ اسے منسوخ قراردینے میں کذب لازم آتا ہے۔ مثلاً: اگرہم ﴿إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى﴾ کو منسوخ کہیں گے تو اس خبر کا جھوٹا ہونا لازم آئے گا، اس بنا پر خبر محض میں نسخ واقع نہیں ہوتا، البتہ جو خبر کسی حکم پر مشتمل ہواس میں نسخ واقع ہوسکتا ہے۔ حدیث میں جس خبر کو منسوخ قراردیاگیا ہے وہ اس قسم کی ہے جو حکم پر مشتمل ہے، پھر مذکورہ بالا آیت کو متقدمین کی اصطلاح کے مطابق منسوخ کہا گیا ہے۔ ان کے ہاں تخصص پر بھی نسخ کا اطلاق کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں مذکور نسخ سے مراد تخصیص ہے جو آیت میں ہوئی ہے۔ تخصیص کے بعد محاسبے سے مراد ان خیالات کا محاسبہ ہے جنھیں انسان پختہ بنالے اوراپنے دل میں بٹھا لے اور وہ خیالات ووساوس جو بلاارادہ بدل میں آجائیں وہ اس محاسبے میں نہیں آئیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے: "اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے لیے ان خیالات کو معاف کردیا ہے جو بے ساختہ دل میں آجائیں جب تک انھیں زبان پر نہ لایا جائے یا ان پر عمل نہ کیا جائے۔ " (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5269) 2۔ ان آیات واحادیث میں اللہ تعالیٰ کے قانون سزا وجزا کا کلیہ بیان ہوا ہے کہ جو کام کسی انسان کی استطاعت سے بڑھ کرہو اس پر انسان کی باز پرس نہیں ہوگی۔ باز پرس تو اس بات یا کام پرہوگی جو انسان کے اختیار اور استطاعت میں ہو اور جہاں انسان مجبور ہوجائے وہاں گرفت نہ ہوگی مگر اس اختیار اور استطاعت کا فیصلہ انسان کو نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ تودلوں کے راز تک جانتا ہے اورآنکھوں کی خیانت بھی اس سے چھپی نہیں رہتی۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4546
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4545
4545. حضرت مروان اصفر سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ کے ایک صحابی، یعنی عبداللہ بن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ: "خواہ تم اپنے خیال کو ظاہر کر دو یا چھپائے رکھو۔۔" منسوخ ہو چکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4545]
حدیث حاشیہ: امام احمد نے مجاہد سے نکالا کہ میں ابن عباسؓ کے پاس گیا۔ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ آیت ﴿وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ﴾ پڑھی اور رونے لگے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ جب یہ آیت اتری تو صحابہ کرام ؓ کو بہت رنج ہوا اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ہم تو تباہ ہو گئے کیونکہ دل ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں اور دلوں میں طرح طرح کے خیال آتے ہی رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہو ﴿سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا﴾ پھر آیت ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾(البقرۃ: 286) نے اس کو منسوخ کر دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4545
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4545
4545. حضرت مروان اصفر سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ کے ایک صحابی، یعنی عبداللہ بن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ آیت کریمہ: "خواہ تم اپنے خیال کو ظاہر کر دو یا چھپائے رکھو۔۔" منسوخ ہو چکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4545]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اس آیت کے منسوخ ہونے کا علم تھا جبکہ ایک حدیث اس کے برعکس ہے، چنانچہ حضرت مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے پاس تھا، انھوں نے اس آیت کو تلاوت کیا اوررونے لگے، اس پر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی تھی توصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین انتہائی دل گرفتہ اور پریشان ہوئے اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسولﷺ! ہم تو ہلاک ہوگئے کیونکہ ہمارے دل ہمارے قبضے میں نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: "تم کہو ہم نے سن لیا اور اطاعت گزاربن گئے۔ " انھوں نے ایسا ہی کہا۔ تب وہ آیت درج ذیل آیت سے منسوخ ہوگئی: "اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ " (مسند أحمد: 332/1) 2۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ شاید ابتدا میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو اس کے نسخ کا علم نہ ہو اور بعد میں اس کا علم ہوا ہو۔ (فتح الباري: 260/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4545