مجھ سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید بن اسود اور یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن شہید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» یعنی ”جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔“ اللہ تعالیٰ کے فرمان «غير إخراج» تک کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔ یہ حمید نے کہا یا کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4536]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4536
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کا خیال تھا کہ منسوخ آیت کو قرآن کریم میں نہیں لکھنا چاہیے۔ اس کے جواب میں حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: آپ اس موضوع کو نہ چھڑیں کیونکہ اس کا تعلق رائے یا قیاس سے نہیں بلکہ اتباع اور پیروی سے ہے یعنی جو ترتیب رسول اللہ ﷺ اور شیخین (ابوبکرؓ اور عمرؓ) تک رہی وہ تو قیامت تک رہے گی، میں اس ترتیب سے کوئی لفظ آگے پیچھے نہیں کروں گا۔ 2۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ موجودہ قرآن کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے اور رسول اللہﷺ کے حکم سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس میں کسی کی عقل یا رائے کو قطعاً کوئی دخل نہیں۔ پھر اس کے تلاوت کرنے میں ثواب ہو گا، نیز بعض اہل علم کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ اس کے عموم میں تخصیص ہوئی ہے کہ بجائے سال بھر کے چار ماہ دس دن ہو گئے علی الاطلاق عدت منسوخ نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ حضرت عباس اسے منسوخ نہیں مانتے جیسا کہ تفصیل میں ذکر کیا جا چکا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4536