ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے حارث بن شبل نے، ان سے ابوعمرو شیبانی نے اور ان سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے، کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لیے بات کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين»”سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو۔“ اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4534]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4534
حدیث حاشیہ: لفظ قانتین سے خاموش رہنے والے فرمانبردار مراد ہیں۔ مجاہد نے کہا قنوت یہ ہےکہ خشوع خضوع طول قیام کے ساتھ ادب سے نماز پڑھے۔ نگاہ نیچی رکھے، نماز دربار الٰہی میں عاجزانہ طور پر ظاہر و باطن کو جھکا دینے کا نام ہے۔ آیت میں قنوت سے نماز میں خاموش رہنا مراد ہے۔ (فتح الباري) حضرت زید بن ارقم ؓ کی کنیت ابو عمرو ہے۔ یہ انصاری خزرجی ہیں۔ کوفہ میں سکو نت اختیار کی تھی۔ 66 ھ میں وفات پائی۔ رضي اللہ عنه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4534
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4534
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں آیت کے صحیح معنی یہی ہیں جو حدیث سےثابت ہو رہے ہیں یعنی قنوت سے مراد سکوت ہے، لیکن اس سکوت سے مراد مطلقاً چپ رہنا نہیں بلکہ لوگوں سے گفتگو نہ کرنا ہے بصورت دیگر نماز میں خاموش رہنا مقصود نہیں بلکہ پوری نماز تلاوت قرآن اور ذکر واذکار سے عبادت ہے۔ (فتح الباري: 250/8) 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب ما ينهى من الكلام في الصلاة) "دوران نماز میں گفتگو کرنا منع ہے۔ '' (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب: 2) انسان کے لیے کمال اطاعت یہ ہے کہ وہ ہر اس چیز سے رک جائے جو قرب و حضور میں رکاوٹ کا باعث ہو گفتگو بھی رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے۔ اس لیے آیت کریمہ سے نماز میں گفتگو کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4534