الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
26. بَابُ: {فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} :
26. باب: آیت کی تفسیر میں ”پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے چاہئیے کہ وہ مہینے بھر روزے رکھے“۔
حدیث نمبر: 4507
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ , عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ , عَنْ سَلَمَةَ , قَالَ:لَمَّا نَزَلَتْ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184 كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا , قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: مَاتَ بُكَيْرٌ , قَبْلَ يَزِيدَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے بکر بن مضر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے بکیر بن عبداللہ نے، ان سے سلمہ بن اکوع کے مولیٰ یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ «وعلى الذين يطيقونه فدية طَعام مسكين‏» تو جس کا جی چاہتا تھا روزہ چھوڑ دیتا تھا اور اس کے بدلے میں فدیہ دے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت نازل ہوئی اور اس نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ بکیر کا انتقال یزید سے پہلے ہو گیا تھا۔ بکیر جو یزید کے شاگرد تھے یزید سے پہلے 120 ھ میں مر گئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4507]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4507 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4507  
حدیث حاشیہ:
اور یزید بن ابی عبید زندہ رہے146ھ یا 147ھ میں ان کا انتقال ہوا اور یہی سبب تھا کہ مکی بن ابراہیم امام بخاری کے شیخ نے یزید بن ابی عبید کو پایا۔
امام بخاری کی اکثر ثلاثی احادیث اسی طریق سے مروی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4507   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4507  
حدیث حاشیہ:

(يُطِيقُونَهُ)
کے معنی اگراستطاعت کیے جائیں تو یہ آیت منسوخ ہے جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے فرمایا ہے اور یہ کبار صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے ہیں۔
اور اس کے معنی اگر عدم استطاعت کیے جائیں تو یہ آیت منسوخ نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کا مؤقف ہے۔
ان کے نزدیک یہ آیت انتہائی بوڑھے شخص کے متعلق ہے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اس آیت کی ایک اور توجیہ کی ہے، فرماتے ہیں:
جو لوگ کھانا دینے کی طاقت رکھتے ہیں وہ صدقہ فطر بطور فدیہ ادا کریں لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح مرجع سے پہلے ضمیر کا آنا لازم آتا ہے جو درست نہیں۔
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ طعام اگرچہ الفاظ کے اعتبار سے متاخر ہے لیکن رتبے کے لحاظ سے مقدم ہے، لہذا اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں۔
اس آیت میں روزے کے احکام کے بعد صدقہ فطر کا بیان ہے جبکہ دوسری آیت میں مسائل رمضان کے بعد تکبیرات عید کا ذکر ہے۔
(الفوز الکبیر بحث نسخ)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4507