ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن مصرف نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو وصی بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ لوگوں پر وصیت کرنا کیسے فرض ہے یا وصیت کرنے کا کیسے حکم ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے کتاب اللہ کے مطابق عمل کرتے رہنے کی وصیت کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4460]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4460
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حکم پر وصیت کا اطلاق بطور مشاکلہ ہے لہٰذا وصیت کی نفی اور اثبات میں کوئی منافات نہیں، یعنی جس وصیت کی نفی کی، وہ مال یا امامت و خلافت کی وصیت تھی اور جسے ثابت کیا، وہ اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کا حکم تھا۔ 2۔ بہر حال حضرت علی ؒ "وصي رسول اللہ" نہیں ہیں یہ شیعہ حضرات کا خود ساختہ پروپیگنڈا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ اس کی کوئی بنیاد ہی ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4460
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3650
´کیا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟` طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ کہا: نہیں ۱؎، میں نے کہا: پھر مسلمانوں پر وصیت کیسے فرض کر دی؟ کہا: آپ نے اللہ کی کتاب سے وصیت کو ضروری قرار دیا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3650]
اردو حاشہ: (1)”نہیں۔“ یعنی کوئی مال وصیت نہیں فرمائی کیونکہ آپ کا کل ترکہ وقف تھا جو بیت المال میں جمع ہوا۔ یا اس کی وصیت کی نفی ہے جو بعض بے دین لوگوں نے مشہور کی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلاف کی وصیت کی تھی۔ (2)”مسلمانوں پر وصیت“ شاید ان کا اشارہ: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ… الخ﴾ کی طرف ہو‘ حالانکہ یہ آیت تو منسوخ ہے۔ یا ممکن ہے ان احادیث میں بھی وصیت کے فرض ہونے کی صراحت نہیں بلکہ وصیت میں تاخیر سے روکا گیا ہے کہ اگر کوئی وصیت کرنا چاہتا ہے تو تاخیر نہ کرے۔ (3)”کتاب اللہ… کی وصیت فرمائی“ اور یہی آپ کا ساری زندگی مطلوب ومقصود رہا‘ لہٰذا وصیت بھی اسی سے متعلق فرمائی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3650
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2696
´کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟` طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) سائل کا سوال خلافت کی وصیت کے بارے میں تھا۔ حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے واضح کردیا کہ رسو ل اللہ نے اس قسم کی کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
(2) سائل کا دوسرا سوال ایک اشکال کا اظہار ہے کہ رسول اللہﷺ نے عام مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا ہے تو خود بھی وصیت کی ہوگی، خصوصاً خلافت جیسے اہم معاملے میں ضرور فرمایا ہوگا کہ میرے بعد فلاں خلیفہ ہوگا تو جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہﷺ نے پورے قرآن پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ جس میں یہ حکم بھی ہے: ﴿وَاُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾(النساء4؍59) ” تم (مسلمانوں) میں سے جوصاحب امر ہوں ان کا حکم مانو۔“
(2) حضرت ابوبکر ؓ کی سیرت مبارکہ کا سب سے اہم پہلو اتباع رسول اللہﷺ ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ نبئ کریمﷺ حضرت علی ؓ کو خلیفہ متعین فرمائیں اور حضرت ابوبکر خود یہ منصب سنبھال لیں، بلکہ وہ تو رسول اللہﷺ کے مقرر کئے ہوئے خلیفے کے اطاعت میں آخری حد تک جانے کو تیار ہوجاتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2696
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2119
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (کوئی مالی) وصیت نہیں کی۔` طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا: پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کو کس چیز کا حکم دیا؟ ابن ابی اوفی نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا ہونے کی وصیت کی۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2119]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا، اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے، بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے، ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفیٰ نے بیان کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2119
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5022
5022. سیدنا طلحہ بن مصرف سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سوال کیا: آیا نبی ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں میں نے عرض کی: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا؟ لوگوں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خود آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5022]
حدیث حاشیہ: وصیت کی نفی سے مراد ہے کہ مال یا دولت یا دنیا کے امور میں یا خلافت کے باب میں کوئی وصیت نہیں کی اور اثبات سے یہ مراد ہے کہ قرآن پر عمل کرتے رہنے کی یا اس کی تعلیم یا دشمن کے ملک میں نہ جانے کی وصیت کی تو دونوں فقروں میں تناقض نہ رہے گا۔ (وحیدی) حدیث میراث نازل ہونے کے بعد مال میں مطلق وصیت کرنا منسوخ ہو گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5022
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2740
2740. حضرت طلحہ بن مصرف سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے دریافت کیا: آیا نبی کریم ﷺ نے کسی چیز کی وصیت کی تھی؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا ہے؟ یا لوگوں کو وصیت کرنے کا کیوں حکم دیا گیا ہے؟انھوں نے فرمایا: (ہاں،)آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل پیرا رہنے کی ضرور وصیت کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2740]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مال کی وصیت نہیں کی کیونکہ آپ نے کوئی مال نہیں چھوڑا تھا۔ حضرت طلحہ بن مصرف نے اس حکم کو عام خیال کر کے دوبارہ سوال کیا کہ لوگوں پر وصیت کیوں فرض کی گئی ہے؟ تو انہوں نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی، چنانچہ ابن حبان کی روایت میں وضاحت ہے، حضرت ابن ابی ؓ سے سوال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: رسول اللہ ﷺ نے کوئی چیز قابل وصیت نہیں چھوڑی تھی۔ پھر سوال ہوا کہ جب آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی تو لوگوں کو وصیت کرنے کا حکم کیوں دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (صحیح ابن حبان: 382/13، و فتح الباري: 443/5) الغرض مال یا خلافت کے متعلق وصیت کی نفی ہے اور کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت کا اثبات ہے۔ (2) جب تک لوگ اس وصیت پر عمل پیرا رہے دنیوی ترقی کی راہ پر گامزن رہے اور جب قرآن و حدیث کو چھوڑ دیا ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، پھر مسلمان فرقوں میں بٹ کر مغلوب ہو گئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2740
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5022
5022. سیدنا طلحہ بن مصرف سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے سوال کیا: آیا نبی ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں میں نے عرض کی: پھر لوگوں پر وصیت کرنا کیوں فرض کیا گیا؟ لوگوں کو تو وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور خود آپ نے کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5022]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بظاہر تناقص معلوم ہوتا ہے کہ وصیت کی نفی پھر اس کا اثبات ہے لیکن اس میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و دولت اور خلافت و امارت کے متعلق کوئی وصیت نہیں فرمائی البتہ قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھامنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی وصیت فرمائی تھی جو حسب ذیل ہے۔ ”میں تم میں دو چیز یں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم ان دونوں پر کاربند رہو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کر سکے گی۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ “(الموطأ للإمام مالك، القدر، حدیث: 1662) حقیقت یہ ہے کہ جب تک مسلمان اس وصیت پر عمل کرتے رہے ان کا دنیا میں طوطی بولتا تھا اور جب اسے نظر انداز کر دیا دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ آج بھی اس پر عمل کر کے اپنی کھوئی ہوئی عزت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5022