ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کیا اور بےرحمی اور سخت دلی اونٹ کی دم کے پیچھے پیچھے چلانے والوں میں ہے، جدھر سے شیطان کے دونوں سینگ نکلتے ہیں (یعنی مشرق) قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4387]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4387
حدیث حاشیہ: طلوع شمس کے وقت سورج کی کرنیں دائیں بائیں پھیل جاتی ہیں، مشر کین اس وقت سورج کی پوجا کرتے ہیں جو شیطا نی فعل ہے، حدیث میں اشارہ اسی طرف ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4387
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4387
حدیث حاشیہ: 1۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان مہاجرین سے شروع ہوا اس کے بعد انصار میں آیا لیکن رسول اللہ ﷺ اہل یمن کے متعلق فرما رہے ہیں کہ ایمان یہاں ہے۔ اس کے مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس اشارے سے مراد اہل یمن ہیں انصار و مہاجرین مراد نہیں ہیں بلکہ آئندہ حدیث میں صراحت ہے کہ تمھارے پاس اہل یمن آئیں گے جن کے دل بہت نرم ہیں۔ ان میں یہ خصوصیت ہے کہ انھوں نے اسلام قبول کرنے میں کوئی حیل و حجت نہیں کی بلکہ اسے قبول کرنے میں جلدی کی، ممکن ہے کہ اہل یمن میں کوئی ایسی خصوصیت ہو جو اہل حجاز میں نہ پائی جاتی ہو، اگرچہ کلی فضیلت تو مہاجرین و انصار کو حاصل ہے۔ 2۔ اس حدیث میں اونٹ رکھنے والوں کی سنگ دلی اور سختی کو بیان کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی مذمت اس لیے فرمائی کہ یہ امور دین سے منہ موڑتے ہیں اور اخروی معاملات کی پروا نہیں کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4387
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3302
´ ایمان تو ادھر ہے یمن میں` «. . .عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: الْإِيمَانُ يَمَانٍ هَا هُنَا أَلَا إِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ . . .» ”. . . عقبہ بن عمرو ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3302]
� لغوی توضیح: «الْقَسْوَةَ» سختی۔ «الْفَدَّادِيْنَ» کھیتی باڑی کرنے والے، اونٹوں اور مویشیوں میں مصروف رہنے والے لوگ۔ «قَرْنَا الشَّيْطَان» شیطان کے سر کے دونوں کنارے۔
فہم الحدیث: اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یمن کے علاوہ باقی علاقوں میں ایمان ہے ہی نہیں یا یمن میں ہمیشہ ایمان رہے گا بلکہ مراد صرف یہ ہے یمن کے اس وقت کے لوگ اہل ایمان ہیں، ورنہ ایک صحیح روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ «الْاِيْمَانُ فِي اَهْلِ الْحِجَازِ»”ایمان اہل حجاز میں ہے۔“[صحيح: مسند احمد 332/3] ↰ شیخ شعیب ارناؤط اسے صحیح کہتے ہیں۔ [مسند احمد محقق 14558] اہل یمن کی تعریف کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ لوگ بغیر جنگ کے اپنی مرضی و رغبت سے مسلمان ہو گئے تھے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 31
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3498
´نجد میں فتنے` «. . . النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِنْ هَا هُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ . . .» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3498]
فوائد و مسائل لغوی طور پر ”نجد“ بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے ”نجد“ ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد“ کی تشریح ”مشرق“ اور ”عراق“ سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو ”نجد“ فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔
اسی بارے میں: ◈ مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں: «ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .» ”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔ [لسان العرب: 413/3]
◈ احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں: «والنجد: ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .» ”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔“[النهاية فى غريب الحديث والاثر: 19/5]
◈ علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ)” نجد“ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.» ”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو «غور» کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ «غور» ہے۔ مکہ بھی اسی «غور» میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔“[إعلام الحديث للخطابي: 4/2 127- ط - المغربية]
◈ امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368 - 463ھ) لکھتے ہیں: «اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم - والله اعلم - الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .» ”واللہ اعلم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔“[الاستذكار: 519/8]
◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م: 449 ھ) لکھتے ہیں: «قال الخطابي: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق: ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس: إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن: الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر: مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره: كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.» حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔“[شرح صحيح البخاري: 44/10]
◈ حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں: «أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.» ”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔“[كشف المشكل على الصحيحين: 493/2]
◈ شارح بخاری، علامہ کرمانی ”نجد“ اور ” غور“ کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل: إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.» ”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔“[شرح الكرماني للبخاري: 168/24]
◈ شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب «باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق» کے تحت لکھتے ہیں: «مطابقته للترجمة فى قوله: ”وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان“، وأشار بقوله: ”هناك“ نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي: نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب: بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب: إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.» ”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں: مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔“[عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 200/24]
◈ نیز لکھتے ہیں: «وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .» ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔“[عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 199/24]
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرماتے ہیں: «وقال غيره: كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.» ”علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔“[فتح الباري: 47/13] ↰ تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا۔
◈ شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م: 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ «يخرج قرن الشيطان» کی شرح میں فرماتے ہیں: «يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل: يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.» ”علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔“[تحفة الاحوذي: 381/4]
◈ «رأس الكفر نحو المشرق» کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م: 1014 ھ) لکھتے ہیں: «رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال: منشأة نحو المشرق.» ”سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔“[مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9]
◈ نیز لکھتے ہیں: «وقال النووي: المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.» ”علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔“[مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح: 4037/9، ح: 6268]
فائدہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا: «هل ترون ما أرى؟ قالوا: لا، قال: فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .» ”جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں اللہ کے رسول!، فرمایا: بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔“[صحيح البخاري: 1046/2، ح: 7060 صحيح مسلم: 389/1، ح 389/1]
اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے: ◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں: «وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.» ”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔“[فتح الباري: 13/13]
الحاصل: احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:463
463- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”ربیعہ اور مضر قبیلے سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو اونٹوں کو ان کی دم کی طرف سے ہانک کر لے جاتے ہیں ان میں جفا، سختی اور شدت پسندی پائی جاتی ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:463]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طبیعت پر کاموں کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جیسے کوئی کام کرتا ہے، ویسے ہی اس کی طبیعت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اونٹ سخت جان ہوتے ہیں، اس لیے اونٹوں کا چرواہا یا اس کا مالک بھی سخت دل ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیاوی امور میں پڑ کر قرآن و حدیث کو چھوڑ دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے، ہر حلال کا روبار کیا جائے لیکن اسلام کے دائرے میں رہ کر۔ قوم ربیعہ اور قوم مضر کی مذمت ثابت ہوتی ہے۔ ربیعہ اور مضر کے قبائل کو کفر میں دوسرے کافروں سے بڑھ کر قرار دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سب کا ایمان برابر نہیں ہوتا۔ کسی کا کم کسی کا زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح سب کافروں کا کفر بھی برابر نہیں، کسی کا کم ہوتا ہے، کسی کا زیادہ۔ یہی حال دل کی دوسری کیفیتوں کا ہے۔ جن لوگوں کا دل نرم ہوتا ہے ان میں ایمان ہوتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 463
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 181
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہاتھ یمن کی طرف کر کے اشارہ کیا اور فرمایا: ”خبردار ایمان ادھر ہے، درشتی و شدّت اور سنگ دلی ان لوگوں میں ہے جواونٹوں کی دم کی جڑ میں چیختے چلاتے ہیں، جہاں شیطان کے دو سینگ نکلتے ہیں ربیعہ و مضر میں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:181]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) قَسْوَةٌ: وہ سختی اور شدت جس کی بنا پر وہ وعظ و نصیحت سے متاثر نہیں ہوتے اور غلظ سختی ہے، جس کی بنا پر دل فہم اور سمجھنے سے عاری ہوتا ہے۔ غِلظَت، نرمی اور رقت کی ضد ہے اور قَسْوَةٌ کے معنی غلظت بھی ہے یہ غلظ سے مصدر ہے۔ (2) فَدَّادِينَ: بعض ائمہ لغت کے نزدیک فداد کی جمع ہے، کھیتی باڑی میں کام آنے والے بیل کو کہتے ہیں۔ لہذا اس سے مراد کاشتکار ہوں گے، چونکہ یہ لوگ علم و تہذیب کے مراکز سے دور ہوتے ہیں، اس لیے ان میں شدت و خشونت یا کھردرا پن ہوتا ہے۔ بعض نے کہا: ہے یہ فدید سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے چیخنا اور چلانا جو اونٹوں کے پیچھے چیختے اور شور کرتے ہیں۔ ابو عبیدہ کے نزدیک زیادہ اونٹ رکھنے والے لوگ ہیں، جن کے پاس دو سو سے لے کر ہزار تک اونٹ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کی صحبت و رفاقت کی بھی تاثیر ہوتی ہے، اس لیے بڑے اور مضبوط جانوروں کے چرواہے، سخت گیر اور بدخلق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے مویشیوں کو خوب مارتے پیٹتے ہیں، بھیڑ بکری کمزور جانوروں کو چرانے والے نرم خو اور نرم دل ہوتے ہیں، کیونکہ وہ بکریوں کو زیادہ مار کر اپنی بھڑاس نہیں نکال سکتے، بلکہ انہیں اپنی بکریوں کے ساتھ نرم برتاؤ کرنا پڑتا ہے، اس لیے وہ نرمی کے عادی ہو جاتے ہیں، اسی بنا پر پیغمبروں نے بکریوں کو چرایا۔ بعض کے بقول اس سے مراد: مال و دولت کی کثرت ہے، مال دار لوگ، دوسروں کو حقیر اور کم تر سمجھ کر ان پر تکبر کرتے ہیں۔ عربوں میں مال و دولت کی کثرت کی علامت اونٹوں کی کثرت تھی، اس لیے اونٹوں کا نام لیا گیا ہے۔ (3) قَرْنَا الشَّيْطَانِ: شیطان کے دو سینگ، کیونکہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ اس کو اپنے دونوں سینگوں کے درمیان لے کر سمجھتا ہے سورج کے پجاری، میری پرستش کر رہے ہیں۔ أُصُوْلٌ: أَصْلٌ کی جمع ہے، جڑ اور بنیاد کو کہتے ہیں، أَذْنَابٌ، ذَنْبٌ کی جمع ہے دم کو کہتے ہیں۔ فوائد ومسائل: انسان، حیوانات جن کے ساتھ سے ہر وقت واسطہ پڑتا ہے، ان کے مزاج اور طبیعت سے متاثر ہوتا ہے، تو انسان، انسانوں کی رفاقت اور دوستی سے کیوں متاثر نہیں ہوگا، اسی لیے شیخ سعدیؒ نےکہا ہے کہ ”جال ہمنشیں دامن اثر کرد“ میں ساتھی کی ہمنشینی سے متاثر ہوا ہوں۔ انسان کے رفیق اور ساتھی جس قسم کے ہوں گے، ویسا ہی رہے بنے گا، ”صحبت صالح ترا، صالح کند، وصحبت طالع، ترا، طالح کند۔ “
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 181
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3302
3302. حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”ایمان، ادھر یمن میں ہے۔ آگاہ رہو کہ سختی اور سنگدلی ان کاشتکاروں میں ہے جو اونٹوں کےپیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہیں جہاں شیطان کے دو سینگ نکلتے ہیں، یعنی ربیعہ اور مضرقبیلوں میں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3302]
حدیث حاشیہ: یمن والے بغیر جنگ اور بغیر تکلیف کے اپنی رغبت اور خوشی سے مسلمان ہوگئے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ یمن والے قوی الایمان رہیں گے بہ نسبت اور ملک والوں کے۔ یمن میں بڑے بڑے اولیاءاللہ اور عاملین بالحدیث گزرے ہیں۔ آخری زمانہ میں علامہ قاضی محمد بن علی شوکانی یمنی حدیث کے بڑے عالم گزرے ہیں۔ ان سے پہلے علامہ محمد بن اسماعیل امیر وغیرہ۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3302
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3498
3498. حضرت ابومسعود ؓسے روایت ہے، وہ اسے نبی کریم ﷺ سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس طرف، یعنی مشرق سے فتنے رونما ہوں گے۔ اور بے وفائی و سنگ دلی اونی خیمے والوں میں ہے جو اونٹوں اور بیلوں کی دموں کے پاس اونچی آوازیں لگانے والے (چلانے والے) ہیں، یعنی ربیعہ اور مضر(کے لوگوں) میں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3498]
حدیث حاشیہ: ربیعہ اور مضر قبیلہ کے لوگ بہت مالدار اور زراعت پیشہ تھے، ایسے لوگوں کے دل سخت اور بے رحم ہوتے ہیں۔ اس حدیث اور اس کے بعد والی حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ اس حدیث میں ربیعہ اور مضر کی برائی بیان کی تو دوسرے قبیلے والوں کی تعریف نکلی اور بعد والی حدیث میں یمن والوں کی تعریف ہے اور یہ ترجمہ باب ہے۔ (وحیدی) فرمان نبوی کے مطابق آئندہ زمانوں میں مشرقی ممالک سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو بھی فتنے اٹھے وہ تفصیل طلب ہیں جنہوں نے اپنے دور میں اسلام کو شدیدترین نقصانات پہنچائے۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3498
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3302
3302. حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”ایمان، ادھر یمن میں ہے۔ آگاہ رہو کہ سختی اور سنگدلی ان کاشتکاروں میں ہے جو اونٹوں کےپیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہیں جہاں شیطان کے دو سینگ نکلتے ہیں، یعنی ربیعہ اور مضرقبیلوں میں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3302]
حدیث حاشیہ: 1۔ اہل یمن بلاجنگ و جدال بلکہ رضا ورغبت مسلمان ہوئے تھے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔ ویسے بھی وہاں بڑے بڑے اہل علم اور عاملین بالحدیث گزرے ہیں جیساکہ علامہ شوکانی اور علامہ صنعانی وغیرہ۔ اس دور میں شیخ مقبل بن ہاوی ؒ گزرے ہیں جو کتاب وسنت کی ترویج و اشاعت کے لیے ہر وقت مصروف رہتے تھے۔ راقم نے ایک یمنی دیکھا تھا جوکتب ستہ کی احادیث مع اسناد کا حافظ تھا۔ 2۔ (فَدَّادِين) کی تفسیر دوطرح سے ہے: ایک یہ کہ فداد کی جمع ہے۔ اس کے معنی سخت آواز، یعنی وہ اونٹوں کے پیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہوں گے۔ دوسرے یہ فدان کی جمع ہے۔ اس کے معنی کھیتی باڑی کا آلہ ہے۔ آپ نے کھیتی باڑی کرنے والوں کی مذمت اس لیے کہ اس کے باعث دینی امور کی طرف توجہ نہیں رہتی اور آخرت سے غفلت ہوجاتی ہے، پھر سنگدلی پیدا ہوجاتی ہے۔ 3۔ بہرحال ان احادیث میں گھوڑوں، اونٹوں اور بکریوں کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3302
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3498
3498. حضرت ابومسعود ؓسے روایت ہے، وہ اسے نبی کریم ﷺ سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اس طرف، یعنی مشرق سے فتنے رونما ہوں گے۔ اور بے وفائی و سنگ دلی اونی خیمے والوں میں ہے جو اونٹوں اور بیلوں کی دموں کے پاس اونچی آوازیں لگانے والے (چلانے والے) ہیں، یعنی ربیعہ اور مضر(کے لوگوں) میں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3498]
حدیث حاشیہ: 1۔ آغازاسلام میں بیشتر کفار مشرق کی جانب رہتے تھے، وہاں سے دجال بھی خروج کرے گا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فتنے مشرق سے اٹھیں گے۔ “ فدادین سے مراد اونچی آوازیں نکالنے والے ہیں، اہل وبراس کا بیان ہے۔ اونٹوں والے جنگلات میں رہائش پزیر ہوں گے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ سخت آوازیں نکالتے ہیں، یعنی کھیتی باڑی اور اونٹوں میں مصروف رہنے کےباعث وہ امور آخرت سے غافل ہوں گے جس کی وجہ سے ان کے دل سخت ہوجائیں گے۔ 2۔ اس حدیث میں ربیعہ اور مضر قبائل کاذکر ہے کہ اکثر قبائل عرب ان کی طرف منسوب ہیں، اس لیے امام بخاری ؒنے اس حدیث کو بیان کیا ہے، نیز صفات وخصائل کے اعتبار سے قبائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں زیادہ باعزت وہ شخص اور قبیلہ ہوگا جو زیادہ تقویٰ شعار ہوگا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3498