الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
59. بَابُ بَعْثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ:
59. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ قبیلے کی طرف بھیجنا۔
حدیث نمبر: 4339
حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ. ح وحَدَّثَنِي نُعَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ إِلَى بَنِي جَذِيمَةَ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ، يَقُولُوا: أَسْلَمْنَا، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا، فَجَعَلَ خَالِدٌ يَقْتُلُ مِنْهُمْ وَيَأْسِرُ، وَدَفَعَ إِلَى كُلِّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ يَقْتُلَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا أَسِيرَهُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ أَسِيرِي، وَلَا يَقْتُلُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِي أَسِيرَهُ، حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَاهُ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، فَقَالَ:"اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَرَّتَيْنِ".
مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی۔ (دوسری سند) اور مجھ سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے اور ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف بھیجا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی لیکن انہیں «أسلمنا‏.‏» ہم اسلام لائے کہنا نہیں آتا تھا، اس کے بجائے وہ «صبأنا‏.‏، صبأنا‏.‏» ہم بےدین ہو گئے، یعنی اپنے آبائی دین سے ہٹ گئے کہنے لگے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کرنا اور قید کرنا شروع کر دیا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کو اس کا قیدی اس کی حفاظت کے لیے دے دیا پھر جب ایک دن خالد رضی اللہ عنہ نے ہم سب کو حکم دیا کہ ہم اپنے قیدیوں کو قتل کر دیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے قیدی کو قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں میں کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا آخر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے صورت حال بیان کیا تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ اے اللہ! میں اس فعل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں، جو خالد نے کیا۔ دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4339]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأبرأ إليك مما صنع خالد بن الوليد
   صحيح البخاريأبرأ إليك مما صنع خالد
   سنن النسائى الصغرىأبرأ إليك مما صنع خالد

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4339 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4339  
حدیث حاشیہ:
خالد بن ولید ؓ فوج کے سردار تھے مگر عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس حکم میں ان کی اطاعت نہیں کی کیونکہ ان کا یہ حکم شرع کے خلاف تھا۔
جب بنی جذیمہ کے لوگوں نے لفظ صبانا سے مسلمان ہونا مراد لیا تو حضرت خالد ؓ کو ان کے قتل کر نے سے رک جانا ضروری تھا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت انے خالد ؓ کے فعل سے اپنی براءت ظاہر فرمائی۔
ان کی خطا اجتہاد ی تھی۔
وہ صبانا کا معنی أسلمنا نہ سمجھے اور انہوں نے ظاہر حکم پر عمل کیا کہ جب تک وہ اسلام نہ لائیں، ان سے لڑو۔
حضرت خالد ؓ ولید قریشی کے بیٹے ہیں جو مخزومی ہیں۔
ان کی والدہ لبابۃ الصغری نامی ام المو منین حضرت میمونہ ؓ کی بہن ہیں۔
یہ اشراف قریش سے تھے۔
آنحضرت انے ان کو سیف اللہ کا خطاب دیا تھا۔
سنہ 21ھ میں وفات پائی، رضي اللہ عنه۔
قَالَ ابن سعد:
وَلَمَّا رَجَعَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مِنْ هَدْمِ الْعُزَّى، وَرَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُقِيمٌ بِمَكَّةَ، بَعَثَهُ إِلَى بَنِي جُذَيْمَةَ دَاعِيًا إِلَى الْإِسْلَامِ، وَلَمْ يَبْعَثْهُ مُقَاتِلًا، فَخَرَجَ فِي ثَلَاثمِائَةٍ وَخَمْسِينَ رَجُلًا، مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ، وَبَنِي سُلَيْمٍ، فَانْتَهَى إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:
مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوا:
مُسْلِمُونَ قَدْ صَلَّيْنَا وَصَدَّقْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَبَنَيْنَا الْمَسَاجِدَ فِي سَاحَتِنَا، وَأَذَّنَّا فِيهَا، قَالَ:
فَمَا بَالُ السِّلَاحِ عَلَيْكُمْ؟ قَالُوا:
إِنَّ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ مِنَ الْعَرَبِ عَدَاوَةً، فَخِفْنَا أَنْ تَكُونُوا هُمْ، وَقَدْ قِيلَ:
إِنَّهُمْ قَالُوا:
صَبَأْنَا، وَلَمْ يُحْسِنُوا أَنْ يَقُولُوا:
أَسْلَمْنَا، قَالَ:
فَضَعُوا السِّلَاحَ، فَوَضَعُوهُ، فَقَالَ لَهُمْ:
اسْتَأْسِرُوا، فَاسْتَأْسَرَ الْقَوْمُ، فَأَمَرَ بَعْضَهُمْ فَكَتَّفَ بَعْضًا، وَفَرَّقَهُمْ فِي أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي السَّحَرِ، نَادَى خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ:
مَنْ كَانَ مَعَهُ أَسِيرٌ فَلْيَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَأَمَّا بَنُو سُلَيْمٍ، فَقَتَلُوا مَنْ كَانَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَأَمَّا الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ فَأَرْسَلُوا أَسْرَاهُمْ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا صَنَعَ خالد فَقَالَ:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خالد "، وَبَعَثَ عليا يُودِي لَهُمْ قَتْلَاهُمْ وَمَا ذَهَبَ مِنْهُمْ» (زاد المعاد)
یعنی جب حضرت خالد بن ولید ؓ عزی کو ختم کر کے لوٹے اس وقت رسول کریم ﷺ مکہ ہی میں موجود تھے۔
آپ نے ان کو بنی جذیمہ کی طرف تبلیغ کی غرض سے بھیجا اور لڑائی کے لیے نہیں بھیجا تھا۔
حضرت خالد ؓ ساڑھے تین سو مہاجر اور انصار صحا بیوں کے ساتھ نکلے۔
کچھ بنو سلیم کے لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔
جب وہ بنو جذیمہ کے یہا ں پہنچے تو انہوں نے ان سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم مسلمان ہیں، نمازی ہیں، ہم نے حضرت محمد ﷺ کاکلمہ پڑھا ہوا ہے اور ہم نے اپنے والانوں میں مساجد بھی بنا رکھی ہیں اور ہم وہاں اذان بھی دیتے ہیں، وہ سب ہتھیار بند تھے۔
حضرت خالد نے پوچھا کہ تمہارے جسموں پر یہ ہتھیار کیوں ہیں؟ وہ بولے کہ ایک عرب قوم کے اور ہما رے درمیان عداوت چل رہی ہے۔
ہما را گمان ہوا کہ شاید تم وہی لوگ ہو۔
یہ بھی منقول ہے کہ ان لوگوں نے بجائے أسلمنا کے صبانا صبانا کہا کہ ہم اپنے پرانے دین سے ہٹ گئے ہیں۔
حضرت خالد ؓ نے حکم دیا کہ ہتھیا ر اتاردو۔
انہوں نے ہتھیار اتار دئے اور خالد ؓ نے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
پس حضرت خالد ؓ کے ساتھیوں نے ان سب کو قید کر لیا اور ان کے ہاتھ باندھ دئے۔
حضرت خالد ؓ نے ان کو اپنے ساتھیوں میںحفاظت کے لیے تقسیم کر دیا۔
صبح کے وقت انہوں نے پکارا کہ جن کے پاس جس قدر بھی قیدی ہوں وہ ان کو قتل کر دیں۔
بنوسلیم نے تو اپنے قیدی قتل کردئے مگر انصار اور مہاجرین نے حضرت خالد ؓ کے اس حکم کونہیں مانا اور ان قیدیوں کو آزاد کر دیا۔
جب اس واقعہ کی خبر رسول کریم ﷺ کو ہوئی تو آپ نے حضرت خالد ؓ کے اس فعل سے اظہاربیزاری فرمایا اور حضرت علی ؓ کو وہا ں بھیجا تاکہ جو لوگ قتل ہوے ہیں ان کا فدیہ ادا کیا جائے اور ان کے نقصان کی تلافی کی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4339   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4339  
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ جب فتح مکہ سے فارغ ہوئے تو ماہ شعبان 8ہجری میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی سرکردگی میں ایک تبلیغی وفد بنو جذیمہ کی طرف روانہ کیا لیکن حملہ نہیں کیا بلکہ اسلام کی تبلیغ کی تھی۔
یہ وفد ساڑھے تین سومہاجرین و انصار اور بنو سلیم پر مشتمل تھا۔
تبلیغ کے نتیجے میں وہ مسلمان ہوگئے لیکن اپنے اسلام لانے کی تعبیر اچھی طرح نہ کرسکے۔
اس پر خالد بن ولید ؓ نے انھیں قتل اور گرفتار کرنا شروع کردیا۔
اس موقع پر صرف بنوسلیم کے لوگوں نے اپنے قیدیوں کوقتل کیا، انصارو مہاجرین نے قتل نہیں کیا تھا۔

حضرت خالد بن ولید ؓ سے چونکہ اجتہادی غلطی ہوئی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے خود کو بری الذمہ قراردیا لیکن حضرت خالد ؓ کوکچھ نہیں کہا، البتہ قوم کے افراد بے گناہ مارے گئے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کو بھیج کر ان کے مقتولین کی دیت اور ان کے نقصانات کا معاوضہ ادا فرمایا۔
(فتح الباري: 72/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4339   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5407  
´جب حاکم ناحق فیصلہ کرے تو اسے رد کر دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بنی جذیمہ کی طرف روانہ کیا، خالد رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، مگر وہ اچھی طرح «اسلمنا» ہم اسلام لائے نہ کہہ سکے بلکہ کہنے لگی: ہم نے اپنا دین چھوڑا، چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ نے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا اور ہر شخص کو اس کا قیدی حوالے کر دیا، جب صبح ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا قیدی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5407]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی حاکم و امیر وغیرہ غلط فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ مردود قرار پائے گا، اس لیے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے شرعی امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اور حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تائید فرمائی۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی عظمت کردار اور استقامت دین کے ساتھ ان کا دین پرسختی سے عمل پیرا ہونے کا حقیقی جذبہ بھی معلوم ہوا، نیز یہ بھی واضح ہوا کہ دینی معاملات میں آپ نہایت جرأت مند تھے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کے لیے بھی نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے کہ خالق کی معصیت کرتے ہوئے، مخلوق میں سے کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی اطاعت کرنا اور اس کی بات ماننا حرام اور ناجائز ہے۔
(4) کافر مسلمان کو صابی کہتے تھے۔ اس کے معنی ہیں: اپنے دین سے نکل جانے والا۔ وہ اس سے بے دین مراد لیتے تھے۔ صبأنا اسی سے ہے۔ بنو جزیمہ کا مقصود تو یہ تھا کہ ہم اپنے آبائی دین سے نکل کر مسلمان ہو چکے ہیں مگر انہوں نے وہ لفظ استعمال کیا جو کفار طنزاً مسلمانوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اسی سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو غلط فہمی ہوئی کہ شاید یہ اپنے کفر پر قائم ہیں اور ہمیں طنز کر رہے ہیں حالانکہ یہ بات نہیں تھی۔ حضرت خالد نے تادیبی کاروائی شروع کردی۔ چونکہ یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، اس لیے رسول اللہ علیہ وسلم نے صرف براءت کے اظہار پر اکتفا کیا اور انہیں کوئی سزا نہیں دی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5407   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7189  
7189. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا خالد بن ولید ؓ کو بنو خزیمہ کی طرف بھیجا تو وہ اپنے اسلام لانے کا اظہار اچھی طرح نہ کرسکے۔ انہوں نے ہم اسلام لائے کے بجائے ہم اپنے دین سے پھر گئے کہنا شروع کر دیا۔ سیدنا خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کر دیا۔ اور انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اس کے حصے کا قیدی دیا اور حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں ہی میں سے کوئی اپنا قیدی قتل کرے گا۔ پھر (واپسی پر ہم) نے اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے اظہار براءت کرتا ہوں۔ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7189]
حدیث حاشیہ:
آپ نے یہ الفاظ فرمائے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ حاکم تھے مگر ان کے غلط فیصلے کو ساتھیوں نے نہیں مانا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوتا ہے۔
سچ ہے لا طاعةَ للمخلوقِ فِي معصبةِ الخالقِ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7189   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7189  
7189. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا خالد بن ولید ؓ کو بنو خزیمہ کی طرف بھیجا تو وہ اپنے اسلام لانے کا اظہار اچھی طرح نہ کرسکے۔ انہوں نے ہم اسلام لائے کے بجائے ہم اپنے دین سے پھر گئے کہنا شروع کر دیا۔ سیدنا خالد ؓ نے انہیں قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کر دیا۔ اور انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو اس کے حصے کا قیدی دیا اور حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کر دے۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں اپنا قیدی قتل نہیں کروں گا اور نہ میرے ساتھیوں ہی میں سے کوئی اپنا قیدی قتل کرے گا۔ پھر (واپسی پر ہم) نے اس واقعے کا ذکر نبی ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے اظہار براءت کرتا ہوں۔ یہ الفاظ آپ نے دو مرتبہ فرمائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7189]
حدیث حاشیہ:

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انھیں قتل کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے پوچھنا چاہیے تھا کہ تمہاری اس سے کیا مراد ہے؟ چونکہ انھوں نے یہ فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کوئی سزا نہیں دی۔
صرف ان کے فعل سے اظہار براءت فرمایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اقدام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہ تھا تاکہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی جراءت نہ کرے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس قسم کا فیصلہ اگراجتہاد وتاویل کی بنیاد پر ہوتو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ یہ فیصلہ کتاب وسنت کے خلاف تھا، اس لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے موقف کی تائید فرمائی اور حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقدام قتل سے اظہار براءت فرمایا۔
(فتح الباري: 225/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7189