55. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
اور لیث بن سعد نے بیان کیا، مجھ سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا تھا کہ ان سے عمر بن کثیر بن افلح نے، ان سے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ابو محمد نے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین کے دن میں نے ایک مسلمان کو دیکھا کہ ایک مشرک سے لڑ رہا تھا اور ایک دوسرا مشرک پیچھے سے مسلمان کو قتل کرنے کی گھات میں تھا، پہلے تو میں اسی کی طرف بڑھا، اس نے اپنا ہاتھ مجھے مارنے کے لیے اٹھایا تو میں نے اس کے ہاتھ پر وار کر کے کاٹ دیا۔ اس کے بعد وہ مجھ سے چمٹ گیا اور اتنی زور سے مجھے بھینچا کہ میں ڈر گیا۔ آخر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور ڈھیلا پڑ گیا۔ میں نے اسے دھکا دے کر قتل کر دیا اور مسلمان بھاگ نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ بھاگ پڑا۔ لوگوں میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نظر آئے تو میں نے ان سے پوچھا، کہ لوگ بھاگ کیوں رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے، پھر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس پر گواہ قائم کر دے گا کہ کسی مقتول کو اسی نے قتل کیا ہے تو اس کا سارا سامان اسے ملے گا۔ میں اپنے مقتول پر گواہ کے لیے اٹھا لیکن مجھے کوئی گواہ دکھائی نہیں دیا۔ آخر میں بیٹھ گیا پھر میرے سامنے ایک صورت آئی۔ میں نے اپنے معاملے کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے ایک صاحب (اسود بن خزاعی اسلمی رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ان کے مقتول کا ہتھیار میرے پاس ہے، آپ میرے حق میں انہیں راضی کر دیں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ کر جو اللہ اور اس کے رسول کے لیے جنگ کرتا ہے، اس کا حق قریش کے ایک بزدل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دے سکتے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور مجھے وہ سامان عطا فرمایا۔ میں نے اس سے ایک باغ خریدا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے اسلام لانے کے بعد حاصل کیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4322]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4322
حدیث حاشیہ: غزوئہ حنین کے بارے میں مزید معلومات درج ذیل ہیں۔ غزوئہ بدر کے بعد دوسرا غزوہ جس کا تذکرہ اشارۃً نہیں بلکہ نام کی صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے وہ غزوئہ حنین ہے۔ حنین ایک وادی کا نام ہے جو شہر طائف سے 30-40 میل شمال ومشرق میں جبل اوطاس میں واقع ہے۔ یہ عرب کا مشہور جنگجو و جنگ باز قبیلہ ہوازن کا مسکن تھا اور اس قبیلہ کی ملکئہ تیر اندازی کی شہرت دوردور تھی۔ انہوں نے فتح مکہ کی خبر پا کر دل میں کہا کہ جب قریش مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تو اب ہما ری بھی خیر نہیں اور خود ہی جنگ و قتال کا سامان شروع کر دیا اور چاہا کہ مسلمانوں پر جو ابھی مکہ ہی میں یکجا تھے، یک بیک آپڑیں اور اس منصوبہ میں ایک دوسرا پر قوت اور جنگجو قبیلہ بنی ثقیف بھی ان کا شریک ہو گیا اور ہوازن اور ثقیف کے اتحاد نے دشمن کی جنگی قوت کوبہت ہی بڑھا دیا۔ حضور ﷺ کو جب اس کی معتبر خبر مل گئی تو ایک اچھے جنرل کی طرح آپ خود ہی پیش قدمی کر کے باہر نکل آئے اور مقام حنین پر غنیم کے سامنے صف آرائی کر لی۔ آپ کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ ان میں دس ہزار تو وہی فدائی جو مدینہ سے ہم رکاب آئے تھے۔ دو ہزار آدمی مکہ کے بھی شامل ہوگئے مگر ان میں سب مسلمان نہ تھے کچھ تو ابھی بہ دستور مشرک ہی تھے اور کچھ نو مسلم کے بجائے، نیم مسلم تھے۔ بہر حال مجاہدین کی اس جمیعت کثیر پر مسلمانوں کو ناز ہو چلا کہ جب ہم تعداد قلیل میں رہ کر برابر فتح پاتے آئے تو اب کی تعداد اتنی بڑی ہے، اب فتح میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو اس کے بعض دور اسلامی لشکر پر بہت ہی سخت گذرے اور مسلمانوں کا اپنی کثرت تعداد پر فخر کرنا ذرا بھی ان کے کام نہ آیا۔ ایک موقع ایسا بھی پیش آیا کہ اسلامی فوج کو ایک تنگ نشیبی وادی میں اترنا پڑا اور دشمن نے اپنی کمین گاہ سے یک بیک ان پر تیروں کی بارش شروع کردی۔ خیر پھر غیبی امداد کا نزول ہوااور آخری فتح مسلمانوں ہی کے حصے میں رہی۔ قرآن مجید نے اس سارے نشیب و فراز کی نقشہ کشی اپنے الفاظ میں کر دی ہے۔ ﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ (25) ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَى رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ﴾(التوبة: 25) اللہ نے یقینا بہت سارے موقعوں پر تمہاری نصرت کی ہے اور حنین کے دن بھی جب کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر غرور ہوگیا تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگی کرنے لگی پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد اللہ نے اپنی طرف سے اپنے رسول اور مومنین پر تسلی نازل فرمائی اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنہیں تم دیکھ نہ سکے اور اللہ نے کافروں کو عذاب میں پکڑا۔ یہی بدلہ ہے کافروں کے لیے۔ غزوئہ حنین کا زمانہ شوال سنہ 8ھ مطابق جنوری سنہ663ء کا ہے۔ (قرآنی سیرت نبوی) حدیث ہذا -----کے ذیل علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ قال الحافظ أبو عبد الله الحميدي الأندلسي: سمعت بعض أهل العلم يقول عند ذكر هذا الحديث: لو لم يكن من فضيلة الصديق -رضي الله عنه- إلا هذا فإنه يثاقب علمه وشدة صرامته وقوّة إنصافه وصحة توفيقه وصدق تحقيقه بادر إلى القول الحق فزجر وأفتى وحكم وأمضى، وأخبر في الشريعة عنه -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بحضرته وبين يديه بما صدّقه فيه وأجراه على قوله، وهذا من خصائصه الكبرى إلى ما لا يحصى من فضائله الأخرى.(قسطلانی) یعنی حافظ ابو عبداللہ حمیدی اندلسی نے کہا کہ میں نے اس حدیث کے ذکر میں بعض اہل علم سے سنا کہ اگر حضرت صدیق اکبر ؓ کے فضائل میں اور کوئی حدیث نہ ہوتی صرف یہی ہوتی تو بھی ان کے فضائل کے لیے یہی کافی تھی جس سے ان کا علم ان کی پختگی قوت انصاف اور عمدہ توفیق اور تحقیق حق وغیرہ اوصاف حمیدہ ظاہر ہیں۔ انہوں نے حق بات کہنے میں کس قدر دلیری سے کام لیا اور فتوی دینے کے ساتھ غلط گوکوڈانٹا اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے دربارعالی میں آواز حق کو بلند کیا، جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تصدیق فرمائی اور ہو بہواسے جاری فرما دیا۔ یہ امور حضرت ابوبکر ؓ کے خصائص میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی حضرت صدیق اکبر ؓ کی روح پر بے شمار سلام اور رحمت نازل فرمائے۔ آمین (راز)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4322
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4322
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں غزوہ حنین کے وقت مسلمانوں کی وقتی شکست کو انتشار و اضطراب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انتشاربھی بعض نئےاسلام قبول کرنے والوں میں تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے قریبی ساتھی اس سے محفوظ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کے منہ پر ماری اور فرمایا: "ان کے چہرے سیاہ ہوں۔ " تو معجزانہ طور پر تمام مشرکین اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ 2۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے قبیلہ ہوازن کے لوگوں کو شکست سے دوچار کیا اور وہ بھاگ نکلے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا: "جو کسی کافر کو قتل کرے وہ اس کا سامان لے لے۔ " اس روز حضرت ابو طلحہ ؓ نے بیس مشرکین کو قتل کیا اور ان کے سامان پر قبضہ کیا تھا۔ حضرت قتادہ ؓ کا واقعہ بھی اسی روز کا ہے، انھوں نے ایک مشرک کو قتل کیا تھا جس کے پاس بہت اسلحہ تھا اس پر ایک آدمی نے قبضہ جما لیا، پھر حضرت ابوبکر ؓ کے کہنے پر وہ سامان ابو قتادہ ؓ کے حوالے کیا گیا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ نے وہ سامان حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کے ہاتھ سات اوقیےچاندی میں فروخت کیا، پھر اس سے باغ خریدا۔ (فتح الباري: 51/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4322