الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
51. بَابُ مَنْ صَلَّى وَقُدَّامَهُ تَنُّورٌ أَوْ نَارٌ أَوْ شَيْءٌ مِمَّا يُعْبَدُ، فَأَرَادَ بِهِ اللَّهَ:
51. باب: اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے آگے تنور، یا آگ، یا اور کوئی چیز ہو جسے مشرک پوجتے ہیں، لیکن اس نمازی کی نیت محض عبادت الہٰی ہو تو نماز درست ہے۔
حدیث نمبر: Q431
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ وَأَنَا أُصَلِّي"
‏‏‏‏ زہری نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر پہنچائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے دوزخ لائی گئی اور اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q431]
حدیث نمبر: 431
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أُرِيتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے فرمایا کہ سورج گہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور فرمایا کہ مجھے (آج) دوزخ دکھائی گئی، اس سے زیادہ بھیانک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 431]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريأريت النار فلم أر منظرا كاليوم قط أفظع

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 431 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 431  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام ؒ نے یہ نکالا ہے کہ نماز میں آگ کے انگارے سامنے ہونے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 431   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:431  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس ؒ سے مروی اس حدیث کو نہایت مختصر طور پر یہاں بیان کیا ہے۔
تفصیل کے مطابق رسول اللہ ﷺ دوران نماز میں دفعتاً پیچھے ہٹے، پھر آگے بڑھے۔
نماز کے بعد دریافت کرنے پر بتایاکہ دوران نماز میں میرے سامنے جنت لائی گئی، میں آگے بڑھا اور اس کا خوشہ انگور توڑناچاہا۔
پھر مجھے جہنم دیکھائی گئی اس کا خوفناک منظر دیکھ کر میں پیچھے ہٹا (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1052)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا کہ اگرنمازی کے سامنےآگ ہو اور نمازی کی نیت صرف اللہ کے لیے نماز پڑھنے کی ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
دراصل بخاری کوایسےاجتہادی مسائل ثابت کرنے کے لیے اشاروں سے کام لینا پڑتا ہے، کیونکہ اس سلسلے میں کوئی نص صریح کتب حدیث میں موجود نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی وقت اختیاری حالات میں آگ کوسامنے کی سمت میں لے کر نماز پڑھی ہو۔
امام بخاری ؒ اس عنوان سے امام ابن سیرین ؒ کی تردید کرنا چاہتے جن کا موقف ہے کہ تنور کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنامکروہ ہے۔
(فتح الباري: 684/1)
حافظ ابن حجر ؒ نے ایک اور انداز سے امام بخاری ؒ کے موقف کی وضاحت کی ہے۔
فرماتے ہیں کہ آپ پیش کردہ روایات سے اس فرق کو واضح کرنا چاہتے ہوں۔
اگرنمازی اور اس کے قبلے کے درمیان آگ حائل ہوجائے اور وہ اسے زائل کرنے یا اس سے ہٹ جانے کی قدرت رکھتا ہو تو ایسے حالات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے اوراگر وہ اس قسم کی آگ کو برقراررکھنے پر مجبور ہواور اسے دورکرنے کی قدرت نہ رکھتا ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھنا جائزہے۔
جیساکہ حضرت ابن عباس ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اس گرجے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔
جس میں سامنے دیوار پر تماثیل ہوتی تھیں بلکہ ایسے حالات میں باہر بارش میں نماز پڑھنے کو اختیار فرماتے۔

بعض حضرات نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ اس حدیث میں صرف آگ دیکھنے کا ذکر ہے، لیکن یہ کہ آپ نے سامنے والی دیوار میں یہ منظردیکھا، حدیث میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔
ممکن ہے کہ دائیں یا بائیں جانب اس آگ کو دیکھا ہو، لہذا اس روایت سے عدم کراہت پر استدلال محل نظر ہے۔
لیکن اس میں اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ حدیث انس میں یہ صراحت ہے کہ بحالت نماز وہ آگ آپ کو پیش کی گئی۔
اس سے بھی زیادہ صراحت حدیث ابن عباس ؓ میں ہے۔
اس میں ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد لوگوں نےعرض کیا:
اللہ کے رسول ﷺ !ہم نے آپ کو دوران نماز میں آگے بڑھتے دیکھا گویا آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، پھر دفعتاً ہم نے دفعتاً آپ کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت اوردوزخ کو لایا گیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ آگ آپ کے سامنے تھی اور ان روایات کے پیش نظر نمازی کے قریب یا دور ہونے کا فرق بھی صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 684/1)
واضح رہے کہ آگ کو ہی آپ کے پاس لایا گیا تھا۔
یہ احتمال بعید ہے کہ آگ اپنی جگہ پر رہی، صرف درمیان سے حجابات کو دور کردیا گیاتھا۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں گیس ہیٹر لگانے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ وہ بجانب قبلہ ہی کیوں نہ ہوں، تاہم احتیاط کاتقاضا ہے کہ انھیں دائیں بائیں یا عقبی دیوار پر نصب کیاجائے تاکہ سامنے ہونے کی صورت میں نمازی کے لیے تشویش کاباعث نہ بنیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 431