الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
51. بَابُ مَنْزِلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ:
51. باب: فتح مکہ کے دن قیام نبوی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4296
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی حبیب نے ‘ ان سے عطاء بن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں فرمایا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب کی خرید و فروخت مطلق حرام قرار دے دی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4296]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريالله ورسوله حرم بيع الخمر
   صحيح البخاريالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام
   صحيح مسلمالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام
   جامع الترمذيحرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام قيل يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس قال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله حرم عليهم الشحوم فأجملوه ثم باعوه
   سنن أبي داودالله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله لما حرم عليهم شحومها أجملوه
   سنن النسائى الصغرىالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام
   سنن النسائى الصغرىحرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام قاتل الله اليهود إن الله لما حرم عليهم شحومها جملوه
   سنن ابن ماجهالله ورسوله حرم بيع الخمر الميتة الخنزير الأصنام أرأيت شحوم الميتة فإنه يدهن بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس قال لا هن حرام قاتل الله اليهود إن الله
   بلوغ المرام إن الله و رسوله حرم بيع الخمر ،‏‏‏‏ والميتة ،‏‏‏‏ والخنزير ،‏‏‏‏ والأصنام

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4296 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4296  
حدیث حاشیہ:
یعنی اللہ نے جیسے شراب پینا حرام کیا ہے ویسے ہی شراب کی تجارت بھی حرام کردی ہے۔
جو لوگ مسلمان کہلانے کے باوجود یہ دھندا کرتے ہیں وہ عند اللہ سخت ترین مجرم ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4296   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4296  
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب البیوع میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی خریدوفروخت سے منع فرمایا۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2236۔
)

اس لیے امام بخاری ؒ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔
اس سے مقصود کسی مسئلے کی حلت وحرمت بیان کرنا نہیں بلکہ صرف اس میں فتح مکہ کاذکر ہے، اس لیے اسے ذکر کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4296   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 649  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں فتح مکہ کے سال یہ فرماتے سنا کہ بیشک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شراب کی خرید و فروخت، مردار اور خنزیر کی خرید و فروخت اور بتوں کی تجارت کو حرام کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ اس لئے کہ اس سے کشتیوں کو طلاء کیا جاتا ہے اور چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ اسے جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! وہ بھی حرام ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی فرمایا اللہ تعالیٰ یہود کو غارت کرے، کہ جب اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو یہود کے لئے حرام کر دیا تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھائی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 649»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الميتة والأصنام، حديث:2236، ومسلم، المساقاة، باب تحريم بيع الخمر والميتة...، حديث:1581.»
تشریح:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا ذکر ہوا اسے فروخت کرنا حرام ہے‘ بلکہ مردار کے تمام اجزاء کی فروخت حرام ہے‘ البتہ اس کا چمڑا جب رنگ دیا جائے تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ آغاز کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی گزر چکا ہے: «أَیُّمَا إِھَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَھُرَ» جو کچا چمڑا رنگ دیا جائے وہ پاک ہو جاتا ہے۔
جمہور نے مردار کے بالوں اور اون کو بھی مستثنیٰ قرار دیا ہے کیونکہ ان پر مردار کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ان پر زندگی وارد ہوتی ہے۔
اور مردار کے بارے میں جو چیزیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں کیں ان کا فائدہ حاصل کرنے اور نفع اٹھانے کے بارے میں اختلاف ہے‘ مثلاً: چراغ جلانا‘ شکرے اور باز کو کھلانا۔
ایک رائے یہ ہے کہ ان سے انتفاع مطلقاً حرام ہے۔
اور علامہ خطابی نے ان سے انتفاع کے جواز پراہل علم کے اس اجماع سے استدلال کیا ہے کہ جب کسی کا جانور مر جائے تو اسے شکاری کتوں کے کھانے کے لیے پیش کرنا جائز ہے تو اسی طرح مردار کی چربی سے کشتیوں کو طلا کرنا بھی جائز ہے۔
ان دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں جیسا کہ عون المعبود(:۳ /۲۹۸) میں فتح الباری کے حوالے سے منقول ہے۔
اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد (:۴ /۲۴۲) میں کہا ہے کہ یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ انتفاع کا باب‘ بیع سے زیادہ وسیع و کشادہ ہے۔
پس معلوم ہوا کہ ہر وہ چیز جسے فروخت کرنا حرام ہے‘ ضروری نہیں کہ اس سے انتفاع بھی حرام ہو۔
ان دونوں کے مابین تلازم نہیں ہے‘ لہٰذا جس چیز کا فروخت کرنا حرام ہے اس سے حرمت انتفاع اخذ نہیں کی جائے گی۔
اصنام (بتوں) کی خرید و فروخت تو صرف اس لیے حرام کی گئی ہے کہ یہ آلات شرک میں سے ایک آلہ ہیں اور اسی سے ہر آلہ ٔشرک کی حرمت مستفید ہوتی ہے،نیز اسی پر باجے اور گانے بجانے کے آلات کو قیاس کیا گیا ہے۔
اور تجارت شراب کی حرمت میں ہر نشہ آور چیز کی تجارت کی حرمت شامل ہوگئی‘ خواہ وہ چیز مائع (بہنے والی) ہو یا منجمدا ور جامد‘ کشید کی گئی ہو یا پکا کر تیار کی ہوئی۔
یہ حدیث تین قسم کی اجناس کی حرمت پر مشتمل ہے: مشروبات (پینے کی اشیاء) جو عقل کو فاسد کر دیتے ہیں‘ کھانے جو طبائع میں فساد پیدا کرتے اور خبیث غذا بنتے ہیں اور نقود (دولت) جو فساد ادیان کا باعث ہوتے اور فتنہ و شرک کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
(الھـدی) اس حدیث میں شدید تنبیہ ہے کہ ہر وہ حیلہ جو حرام کو حلال بنانے کے راستے کی طرف لے جاتا ہو‘ باطل ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 649   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4261  
´مردار کی چربی سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت حرام کر دی ہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اسے کشتیوں پر لگایا جاتا اور کھالوں پر ملا جاتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ نے فرمایا: نہیں، وہ حرام ہے، پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الفرع والعتيرة/حدیث: 4261]
اردو حاشہ:
(1) مردار جانور کی چربی انواعِ استعمال میں سے کسی بھی نوع میں استعمال نہیں ہوسکتی۔
(2) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ حیلہ جو کسی حرام چیز کو حلال کرنے کی خاطر اختیار کیا جائے، باطل ہے۔ ایسا حیلہ بھی باطل ہے جو حرام چیز کی حلت تک لے جائے اور اسی طرح اس کے برعکس بھی۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کی ہیئت اور اس نام کی تبدیلی سے اس چیز کا حکم نہیں بدلتا، مثلاََ یہودیوں نے جامد چربی کو پگھلا کر اسے مائع میں تبدیل کرکے استعمال کیا، اس کے باوجود ان پر لعنت کی گئی۔ یہی حکم دیگر اشیاء کا ہے۔ نیز اس مسئلے کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ جو کوئی حرام چیزوں کو حلال کرنے کی خاطر کسی قسم کا حیلہ تراشتا ہے، وہ ملعون ہے کیونکہ وہ بھی اس سلسلے میں یقینا ان یہودیوں کی راہ پر چلا ہے جنھوں نے اﷲ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کرنے کے لیے حیلے بہانے گھڑ لیے تھے۔ أعاذنا اللہ منه
(4)  مذکورہ تفصیل سے مقصود یہ ہے کہ جو چیز فی نفسہ حرام ہے، اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا حرام ہے نیز اس کا کاروبار بھی حرام ہے۔ اس کو کسی حیلے سے حلال نہیں کیا جا سکتا، مثلاََ: شراب کو سرکہ بنا کر بیچا نہیں جا سکتا۔ حرام چیز کی قیمت بھی حرام ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4261   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4673  
´سور بیچنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اور آپ مکہ میں تھے: اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کے بیچنے سے منع فرمایا۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردے کی چربی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس سے تو کشتیاں چکنی کی جاتی ہیں، کھالوں میں استعمال ہوتا ہے اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ نے فرمایا: نہیں، وہ حرام ہے، اس وقت آپ نے یہ بھی فرمایا: اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4673]
اردو حاشہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ جیسے خنزیر حرام ہے ایسے ہی اس کی خرید و فروخت بھی حرام ہے، نیز اگر کوئی فرد یا قوم کسی ممنوع اور حرام چیز کو حلال کرنے کی خاطر کسی قسم کا حیلہ بہانہ تراشے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ لعنتی ہے کیونکہ اس طرح وہ ان یہودیوں کی راہ پر چلا ہے جنھوں نے اللہ عزوجل کی حرمتوں کو پامال کرنے کے لیے حیلے بہانے گھڑ لیے تھے اور اللہ کے ہاں مغضوب علیہ اور لعنتی قرار پائے تھے۔
(2) خنزیر مطلقاً حرام ہے۔ اس کی کوئی چیز بھی استعمال نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس کی بیع ہر حال میں حرام ہے۔ اس کی کوئی چیز بھی فروخت نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ اس کی کھال بھی دباغت سے پاک نہیں ہو سکتی۔ (مزید دیکھیے، حدیث: 4261)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4673   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3486  
´شراب اور مردار کی قیمت لینا حرام ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (آپ مکہ میں تھے): اللہ نے شراب، مردار، سور اور بتوں کے خریدنے اور بیچنے کو حرام کیا ہے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ (اس سے تو بہت سے کام لیے جاتے ہیں) اس سے کشتیوں پر روغن آمیزی کی جاتی ہے، اس سے کھال نرمائی جاتی ہے، لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (ان سب کے باوجود بھی) وہ حرام ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر فرمایا: اللہ تعالی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3486]
فوائد ومسائل:

وہ اشیاء جن کا استعمال جائز نہ ہو۔
ان کی تجارت کس طرح جائز قرار دی جا سکتی ہے؟ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
کہ شراب حرام ہے۔
ادویات میں بھی استعمال حرام ہے۔
اوراس کی تجارت بھی حرام ہے۔


مردار جانور کا گوشت یا اس کی ہڈیاں فروخت کرنا حرام ہے۔
البتہ (حلال جانوروں کا) چمڑا رنگے جانے کے بعد پاک ہوجاتا ہے۔
اور اس کی بیع بھی جائز ہے۔


خنزیر زندہ ہو یا مردہ اس کے تمام اجزاء نجس اور حرام ہیں۔
مردار کی ہڈیوں سے حاصل ہونے والے مواد بھی حرام ہیں۔
ان حرام اشیاء کی خریدوفروخت نہیں ہوسکتی۔


مردار کی چربی کو چراغ میں جلانا جائز ہے۔
لیکن فروخت کرنا قطعاً درست نہیں۔


بت اور ذی روح اشیاء کی تماثیل (مجسمے) لکڑی لوہے مٹی پتھر یا پلاسٹک وغیرہ کی ہوں۔
خواہ بچوں کے کھلونے کیوں نہ ہوں۔
ان کا بنانا اور تجارت کرنا حرام ہے، چھوٹے بچے بچیاں گھروں مین اگر ازخود بنالیں اور ان کی آنکھیں ناک۔
کان۔
وغیرہ نہ ہوں محض ہیولے کی صورت ہوں۔
تو رخصت دی جا سکتی ہے۔
جیسے کہ حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے ایک گھوڑا بنایا تھا۔


ایسے تمام حیلے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کرنے کےلئے استعمال کئے جایئں حرا م ہیں۔
نام تبدیل کردینے سے حکم تبدیل نہیں ہوتا۔
اور حیلوں سے کام نکالنا یہودیوں کی صفت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3486   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2167  
´حرام اور ناجائز چیزوں کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے۔`
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال جب کہ آپ مکہ میں تھے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے، اس وقت آپ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں ہمیں بتائیے اس کا کیا حکم ہے؟ اس سے کشتیوں اور کھالوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور اس سے لوگ چراغ جلاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (یہ بھی جائز نہیں) یہ سب چیزیں حرام ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2167]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  شراب، مردار اور خنزیر، ان کو جس طرح کھانا حرام ہے، اسی طرح ان کے دوسرے استعمال بھی حرام ہیں۔

(2)
  مردہ جانور کی چربی کھانے یا جلانے میں استعمال کرنا حرام ہے۔
اسی طرح اس کے دوسرے صنعتی استعمال بھی جائز نہیں۔

(3)
  غیر مسلم ممالک میں حلال جانور (مرغی، بکری، گائے وغیرہ)
بھی ذبح نہیں کیے جاتے بلکہ اللہ کا نام لیے بغیر مشینوں سے کاٹ دیے جاتے ہیں۔
ان ممالک سے آنے والی چربی یا چربی سے تیار شدہ اشیاء استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اور مسلمانوں کو ان ممالک میں جا کر ان کا ذبیحہ کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(4)
  حرام اشیاء کو بیچنا بھی منع ہے۔
اس طرح حاصل ہونے والی کمائی حرام ہے۔

(5)
  غیر مسلموں کی بری عادات اور ان کے رسو رواج سے اجتناب ضروری ہے۔

(6)
  حیلہ کرنے سے حرام چیز حلال نہیں ہو جاتی بلکہ گناہ زیادہ شنیع اور برا ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2167   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4048  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح مکہ کے سال مکہ میں سنا، آپﷺ فرما رہے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول نے، شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے، پوچھا گیا، اے اللہ کے رسول! مردار کی چربی کے بارے میں فرمائیں، اس کا کیا حکم ہے، کیونکہ اس سے کشتیوں کو روغن کیا جاتا ہے، اور اس سے چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ روشن کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں، وہ حرام... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4048]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مردار سے مراد وہ جانور ہیں،
جو اپنی موت آپ مر جائے،
یا شرعی طریقہ کے مطابق اس کو ذبح نہ کیا جائے،
مردار کا گوشت بالاتفاق حرام ہے،
اور مچھلی اور مکڑی حدیث کی روشنی میں اس سے مستثنیٰ ہیں۔
باقی اجزاء کے بارے میں اختلاف ہے،
امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک جن اجزاء میں زندگی نہیں ہوتی،
مثلا بال،
ناخن،
کھر اور سینگ وغیرہ،
ان سے فائدہ اٹھانا اور بیچنا جائز ہے،
لیکن امام شافعی اور احمد رحمہما اللہ کے نزدیک مردار کے تمام اجزاء نجس ہوتے ہیں،
اس لیے ان کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔
یہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے لکھا ہے،
لیکن حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے بقول،
جن اجزاء میں زندگی نہیں ہے،
وہ مردار نہیں ہیں،
اس لیے جمہور اہل علم کے نزدیک طاہر حیوان کے یہ اجزاء مردار ہونے کی صورت میں طاہر ہوں گے۔
امام ابو حنیفہ،
امام مالک،
امام احمد،
امام لیث،
امام داود وغیرہم رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے،
صرف امام شافعی،
ان کو نجس قرار دیتے ہیں۔
(زاد المعاد ج 5 ص 667)
ہڈیوں کے بارے میں اختلاف ہے،
جن حضرات کے نزدیک وہ نجس نہیں ہیں،
جیسے امام ابو حنیفہ،
بعض حنابلہ اور ابن وہب مالکی،
ان کے نزدیک ان کی تجارت (بیع)
جائز ہے،
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کو ترجیح دی ہے۔
(ج 5،
ص 674)

امام مالک ہڈیوں کو نجس سمجھتے ہیں،
اس لیے ان کے نزدیک مردار کی ہڈیوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے،
اس لیے وہ ہاتھی دانت (عاج و انیاب)
کی خرید و فروخت اور ان کے استعمال کو جائز نہیں سمجھتے۔
اس حدیث کی رو سے میت انسان کی خرید و فروخت بھی جائز نہیں ہے،
وہ مسلمان ہو یا کافر،
اس لیے جب نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ،
خندق میں گرا اور مسلمانوں نے اس کو قتل کر کے،
اس پر قبضہ کر لیا،
اور کافروں نے اس کی لاش کے عوض دس ہزار درہم کی پیشکش کی،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا،
اور اس کی لاش ان کے حوالہ کر دی۔
(عمدۃ القاری،
ج 12،
ص 56،
مطبوعہ منیریہ،
شرح مسلم،
ج 2،
نووی،
ص 23)
(2)
خنزیر کی بیع کی حرمت پر اتفاق ہے،
اس کے کسی جزء کو بھی نہیں بیچا جا سکتا،
مردار،
شراب اور خنزیر کی حرمت کی علت قبول ابن حجر رحمہ اللہ،
جمہور علماء کے نزدیک نجاست ہے،
اس لیے ہر نجس چیز کی بیع حرام ہے،
فتح الباری،
ج 4،
ص 537۔
مکتبہ دارالسلام،
لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے اس قول کو شوافع کی طرف منسوب کیا ہے،
مسلم،
ج 2،
ص 23۔
اس لیے ائمہ ثلاثہ کے نزدیک،
ارڑی اور عزرہ گندگی کا بیچنا جائز نہیں ہے،
لیکن احناف کے نزدیک علت،
مردار،
خنزیر اور شراب سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت ہے،
اس لیے جن چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے،
ان کی بیع بھی جائز ہے۔
(3)
صنم:
بت کی بیع کی حرمت کی علت،
اس سے جائز نفع کا نہ ہونا ہے،
اس اعتبار سے اگر اسے توڑ پھوڑ کر نفع اٹھانا ممکن ہو،
تو پھر اس کے اجزاء کا بیچنا،
بعض احناف اور بعض شوافع کے نزدیک جائز ہے،
اور صنم کی بیع کی حرمت سے معلوم ہوتا ہے،
وہ تمام آلات اور اشیاء جن کی پرستش ہوتی ہے،
ان کی بیع ناجائز ہے،
بلکہ بقول حافظ ابن قیم شرک کی پرچار کرنے والی کتابوں کی بیع بھی جائز نہیں ہے۔
(زاد المعاد،
ج 5،
ص 675)
(4)
لا،
هو،
حرام،
هو،
کا مرجع شوافع کے نزدیک اور حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہما اللہ کے نزدیک بیع ہے،
کہ چربی سے ان فوائد اور منافع کے حصول کے باوجود اس کی بیع حرام ہے،
اس لیے اس سے یہ منافع حاصل کرنا جائز ہے،
لیکن خرید و فروخت جائز نہیں ہے،
خلاصہ کلام کے طور پر حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
ليس كل ما حرم بيعه حرم الانتفاع به،
بل لا تلازم بينهما،
فلا يؤخذ تحريم الانتفاع من تحريم البيع (زاد المعاد،
ج 5،
ص 668)

ہر چیز جس کا بیچنا حرام ہے،
اس سے فائدہ اٹھانا حرام نہیں ہے،
بیع کی حرمت اور انتفاع کی حرمت آپس میں لازم و ملزوم نہیں ہیں،
اس لیے بیع کی حرمت سے انتفاع (فائدہ اٹھانا)
کی حرمت ثابت نہیں ہوتی،
لیکن جمہور علماء جن میں احناف بھی داخل ہیں،
ان کے نزدیک مردار کی چربی سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے،
گویا ضمیر کا مرجع بیع نہیں بلکہ نفع اٹھانا ہے،
اور بعض احادیث میں ضمیر هي یا هن ہے،
اس سے جمہور کی تائید ہوتی ہے،
اور شوافع کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے فرمایا:
"انہوں نے چربی کو بیچا اور اس کی قیمت کو استعمال کیا تو حرمت اس کی بیع ہے،
کیونکہ جس چیز کا کھانا حرام ہے،
اس کا بیچنا بھی حرام ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4048   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2236  
2236. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے مکہ مکرمہ میں عام الفتح کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب، مردار، خنزیر، اور بتوں کی خریدوفروخت کوحرام کردیاہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ﷺ! مردار کی چربی کا کیا حکم ہے؟لوگ اسے کشتیوں پر ملتے ہیں، کھالوں پر لگاتے ہیں اور اپنے گھروں میں اس سے چراغ بھی جلالیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ بھی حرام ہے۔ پھر اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود کوتباہ وبرباد کرے!جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انھوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور قیمت کھائی۔ حضرت عطاء نے یزید کو لکھا کہ میں نے حضرت جابر ؓ سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے یہ روایت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2236]
حدیث حاشیہ:
مکہ8ھ میں فتح ہوا ہے۔
مردار کی چربی، اکثر علماءنے اس کے متعلق یہ بتلایا ہے کہ اس کی بیچنا حرام ہے اور اس سے نفع اٹھانا درست ہے۔
مثلاً کشتیوں پر لگانا اور چراغ جلانا۔
بعض نے کہا کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں سوا اس کے جس کی صراحت حدیث میں آگئی ہے۔
یعنی چمڑا جب اس کی دباغت کر لی جائے، اگر کوئی پاک چیز ناپاک ہو جائے جیسے لکڑی یا کپڑا تو اس کی بیع جمہور علماءکے نزدیک جائز ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
إن اللہ ورسوله حرم بیع الخمر والمیتة والخنزیر والأصنام یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے اور نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
إن اللہ إذا حرم شیئا حرم ثمنه بے شک خداوند تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا تو اس کی قیمت کو بھی حرام کیا ہے، یعنی جب ایک چیز سے نفع اٹھانے کا طریق مقرر ہے مثلاً شراب پینے کے لیے ہے۔
اور بت صرف پرستش کے لیے۔
پس اللہ نے ان کو حرام کر دیا۔
اس لیے اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ ان کی بیع بھی حرام کی جائے۔
اور نیز آپ ﷺنے فرمایا مهر البغي خبیث۔
یعنی زانیہ کی اجرت خبیث ہے اور آنحضرت ﷺ نے کاہن کو اجرت دینے سے منع فرمایا اور آنحضرت ﷺ نے مغنیہ کے کسب سے نہی فرمائی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ جس مال کے حاصل کرنے میں گناہ کی آمیزش ہوتی ہے، اس مال سے نفع حاصل کرنا بدو وجہ حرام ہے ایک تو یہ کہ اس مال کے حرام کرنے اور اس سے انتفاع نہ حاصل کرنے میں معصیت سے باز رکھنا ہے اور اس قسم کے معاملہ کے دستور جاری کرنے میں فساد کا جاری کرنا اور لوگوں کو اس گناہ پر آمادہ کرنا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی دانست میں اور ان کی سمجھ میں ثمن مبیع سے حیلہ پیدا ہوتا ہے اور اس عمل کی خباثت ان کے علوم میں اس ثمن اور اس اجرت کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور لوگو ں کے نفوس میں بھی اس کا اثر ہوتاہے۔
اسی لیے آپ ﷺ نے شراب کے باب میں اس کے نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے اور پینے والے اور لے جانے والے اور جس کے پاس لے جارہا ہے ان سب پر لعنت فرمائی کیوں کہ معصیت کی اعانت اور اس کا پھیلانا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا بھی معصیت اور زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، انصار میں سے ہیں۔
قبیلہ سلم کے رہنے والے ہیں۔
ان کاشمار ان مشہور صحابہ میں ہوتا ہے جنہو ں نے حدیث کی روایت کثرت سے کی ہے۔
بدر اور جملہ غزوات میں جن کی تعداد اٹھارہ ہے۔
یہ شریک ہوئے۔
شام اور مصر میں تبلیغی و تعلیمی سفر کئے۔
آخر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔
ان سے جماعت کثیرہ نے احادیث کو نقل کیا ہے۔
94سال کی عمر میں 74ھ میں مدینۃ المنورہ میں وفات پائی۔
جب کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کا زمانہ تھا۔
کہا جاتا ہے کہ صحابہ ؓ میں سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی بزرگ ہیں۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
آمین ماہ رمضان المبارک 8ھ مطابق 630ءمیں مکہ شریف فتح ہوا۔
اس وقت نبی کریم ﷺ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام ؓ تھے۔
اس طرح کتب مقدسہ کی وہ پیش گوئی پوری ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے:
خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا۔
دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔
اور اس کے دائیں ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔
وہ قوم کے ساتھ کمال اخلاص سے محبت رکھتا ہے۔
اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وے تیرے قدموں کے نزدیک ہیں اور تیری تعلیم کو مانیں گے۔
(تورات، استثناء2 تا 33/4)
اس تاریخی عظیم فتح کے موقعہ پر آپ ﷺنے ایک خطاب عام فرمایا۔
جس میں شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کے متعلق بھی یہ احکامات صادر فرمائے جو یہاں بیان ہوئے ہیں۔
(نوٹ)
تورات مطبوعہ کلکتہ 1842 سامنے رکھی ہوئی ہے اسی سے یہ پیش گوئی نقل کر رہا ہوں (راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2236   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2236  
2236. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے مکہ مکرمہ میں عام الفتح کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے شراب، مردار، خنزیر، اور بتوں کی خریدوفروخت کوحرام کردیاہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول ﷺ! مردار کی چربی کا کیا حکم ہے؟لوگ اسے کشتیوں پر ملتے ہیں، کھالوں پر لگاتے ہیں اور اپنے گھروں میں اس سے چراغ بھی جلالیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ بھی حرام ہے۔ پھر اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود کوتباہ وبرباد کرے!جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انھوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور قیمت کھائی۔ حضرت عطاء نے یزید کو لکھا کہ میں نے حضرت جابر ؓ سے سنا، وہ نبی کریم ﷺ سے یہ روایت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2236]
حدیث حاشیہ:
(1)
شراب، مردار اور خنزیر کی خریدوفروخت اس لیے حرام ہے کہ یہ تمام چیزیں نجس اور پلید ہیں، اسی طرح بتوں کی جب تک صورتیں برقرار ہیں ان سے بھی نفع کمانا جائز نہیں۔
جب انھیں توڑ دیا جائے تو بطور ایندھن خریدوفروخت کرنےمیں کوئی حرج نہیں۔
(2)
واضح رہے کہ یہود پر چربی حرام تھی، انھوں نے فتویٰ دیا کہ اس کا صرف کھانا حرام ہے گویا فائدہ اٹھانے کا ایک حیلہ انھوں نے تلاش کرلیا۔
اسی طرح لوگوں نے جب رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مردار کی چربی ہم ان ان کاموں میں استعمال کرتے ہیں تو آپ نے اس موقع پر یہود کا حوالہ دیا کہ حرام کو جائز کرنے کا یہ حیلہ بنتا ہے، اس لیے ایسا کر نا جائز نہیں۔
حلال جانور جب مرجائے تو اس کی کھال کو رنگ کر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
حدیث میں اس کا جواز ملتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2236