مجھ سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا ‘ ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے ‘ ان سے عامر شعبی نے اور ان سے نعمان بن بشیر نے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پر (ایک مرتبہ کسی مرض میں) بے ہوشی طاری ہوئی تو ان کی بہن عمرہ والدہ نعمان بن بشیر یہ سمجھ کر کہ کوئی حادثہ آ گیا ‘ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے لیے پکار کر رونے لگیں۔ ہائے میرے بھائی ہائے ‘ میرے ایسے اور ویسے۔ ان کے محاسن اس طرح ایک ایک کر کے گنانے لگیں لیکن جب عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ تم جب میری کسی خوبی کا بیان کرتی تھیں تو مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ کیا تم واقعی ایسے ہی تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4267]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4267
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ہے کہ فرشتے لوہے کا گرزاٹھا تے اور عبد اللہ ؓ سے پوچھتے کیا تو ایسا ہی تھا۔ معلوم ہوا کہ بعض بیماریوں میں مرنے سے پہلے ہی فرشتے نظر پڑ جایا کرتے ہیں گو آدمی نہ مرے۔ چنانچہ عبد اللہ ؓ اس بیماری سے اچھے ہو گئے تھے یہی عبد اللہ بن رواحہ ؓ ہیں جو غزوہ موتہ میں شہید یہوئے۔ اس مناسبت سے اس حدیث کو اس باب کے ذیل میں لایا گیا۔ مزید تفصیل حدیث ذیل میں آرہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4267