حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں۔
مسجد میں اموال کی تقسیم
مسجد میں خوشئہ کھجور لٹکانے کا بیان۔
اس سلسلے میں جو حدیث پیش کی گئی ہے، اسے امام حاکم ؒ نے مستدرک میں موصولاًبیان کیا ہے، اس سے اموال کی تقسیم کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے، لیکن اس میں خوشئہ کھجور لٹکانے کے متعلق کوئی ذکر نہیں۔
شارح ابن بطال ؒ نے اسے امام بخاری ؒ کی غفلت قراردیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 173/2) ابن تین نے اسے امام بخاری ؒ کی بھول پر محمول کیا ہے۔
(فتح الباري: 668/1) لیکن بعض شارحین نے امام بخاری ؒ کے ذوق کے مطابق توجیہات ذکر کی ہیں، امام بخاری ؒ خوشئہ کھجور لٹکانے کو تقسیم اموال پر قیاس کر رہے ہیں، کیونکہ دونوں میں ضرورت مندوں کے لیے مسجد میں مال رکھنے کی بات مشترک طور پر پائی جاتی ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں اس کا ذکر کر کے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے عوف بن مالک ؓ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لائے اور آپ کے ہاتھ میں عصاتھا۔
ایک شخص نے مسجد میں ردی کھجور کا خوشہ لٹکادیا تھا۔
آپ نے اس خوشے کو عصا مارتے ہوئے فرمایا:
”صدقہ دینے والا اگر چاہتا تو اس سے بہتر بھی صدقہ دے سکتا تھا۔
“ (السنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2495) چونکہ یہ روایت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انھوں نے عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا۔
(فتح الباري: 669/1) اگرچہ اس روایت میں خوشئہ کھجور کا ذکر نہیں, لیکن امام ثابت بن حزم اندلسی ؒ نے دلائل في غریب الحدیث میں اس روایت کے ساتھ یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ جب آپ تشریف لائے تو آپ نے مسجد میں کھجورکے خوشےلٹکے ہوئے دیکھے، کیونکہ آپ نے ہر دیوار پر انھیں لٹکانے کا حکم دیاتھا تاکہ جن لوگوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں وہ ان سے کھا سکیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اصل روایات میں خوشئہ کھجور کو مسجد میں لٹکانے کا تذکرہ تھا جن کی طرف امام بخاری ؒ نے عنوان میں اشارہ کر دیا ہے۔
(عمدة القاري: 409/3) بہر حال روایت سے مسجد میں تقسیم اموال کا مسئلہ ثابت ہوگیا۔
رہا خوشئہ کھجور کے مسجد میں لٹکانے کا حکم تو وہ اگرچہ روایت میں نہیں تاہم قیاس اصل روایت یا دیگر روایات سے ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں اشارہ فرمایا ہے۔
2۔
دیگر رویات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی ؒ نے تقریباً ایک لاکھ درہم بحرین سے بھیجے تھے جو وہاں کے باشندوں سے بطور خراج وصول کیے گئے تھے اور یہ مال مدینہ پہنچ چکا تھا اور آپ نے اسے تقسیم فرمایا۔
لیکن حضرت جابر ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحرین سے مال آنے پر انھیں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن آپ اس سے پہلے ہی خالق حقیقی سے جاملے۔
دونوں روایات میں ظاہری طور پر تعارض معلوم ہو رہا ہے، لیکن درحقیقت یہ روایت مذکورہ حدیث کے معارض نہیں، کیونکہ مال ہر سال آتا تھا جس سال آپ نے حضرت جابر ؓ کو دینے کا وعدہ کیا تھا اس سال مال آنے سے پہلے آپ ﷺ اللہ کو پیارے ہو گئے۔
(فتح الباري: 669/1) واللہ أعلم۔
3۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں ہر وہ کام کرنا جائز ہے جس کا تعلق مصالح عامہ سے ہو، مثلاً:
پانی کی سبیل کا اہتمام جس سے تمام لوگ مستفید ہوتے ہیں، اسی طرح کے دیگر کام مسجد میں کیے جا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ مسجد میں تقسیم کے لیے مال تو رکھا جا سکتا ہے، لیکن مسجد کو بطور سٹور استعمال کرنا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 669/1) اس حدیث سے متعلقہ دیگر احکام ومسائل کتاب الجهاد حدیث 3049 کے تحت بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ