مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے چچا محمد بن مسلم بن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ دونوں راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا تو عروہ نے مجھے اس میں جو کچھ خبر دی تھی ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو جائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہو گا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کر دیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے)(شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو شرط کے مناسب تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4180]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4180
حدیث حاشیہ: 1۔ مقام حدیبیہ میں جو دفعات صلح طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابھی صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سہیل نے بیٹے ابوجندل ؓ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے، انھوں نے خود کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ اس پر سہیل نے کہا: یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابھی تو ہم نے صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں کی۔ “ بہرحال سہیل کے اصرار پر ابوجندل ؓ کو واپس کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ”ابوجندل! صبر کرو اور اسے باعث ثواب خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ پیدا کرے گا۔ ہم نے چونکہ قریش سے صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔ “ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ایماندار عورتیں ہجرت کر کے مدینے آئیں تو ان کے گھر والوں نے معاہدے کی رو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنیاد پر مستردکردیا کہ واپسی کی دفعہ کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے: ”ہماری جو آدمی آپ کے پاس آجائےگا آپ اسے لازمی طور پر واپس کردیں گے خواہ وہ آپ ہی کےدین پر کیوں نہ ہو۔ “ نیز قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں فی الواقع ایماندار ہیں تو انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کےلیے حلال ہیں۔ (الممتحنة: 10/60) اس سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، لہذا ام کلثوم ؓ سمیت دوسری مہاجر عورتیں واپس نہیں کی گئیں۔ 3۔ صلح حدیبیہ کی تفصیلات اورحضرت ابوبصیر ؓ کا واقعہ جاننے کے لیے صحیح بخاری حدیث 2732 کا مطالعہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4180