ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے طارق بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ سعید بن مسیب کی مجلس میں «الشجرة» کا ذکر ہوا تو وہ ہنسے اور کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ وہ بھی اس درخت کے تلے بیعت میں شریک تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4165]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4165
حدیث حاشیہ: 1۔ جس درخت کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی وہ کبڑا تھا جسے حدباء کہا جاتا تھا، اسی درخت کے نام سےحدیبیہ موسوم ہے۔ 2۔ حضرت ابن عمرؓ نے بھی مسیب بن حزن ؓ کی موافقت کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ سال جب ہم عمرے کے لیے آئے تو جس درخت کے نیچے ہم نے بیعت کی تھی وہ شخص بھی اس کی شناخت پر متفق نہ ہوسکے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت تھی۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2958) چونکہ اس درخت کے نیچے خیروبرکت پر مشتمل بیعت رضون ہوئی تھی، اس لیے لوگوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کے اندیشے کی وجہ سے اس کی جگہ نگاہوں سے مخفی ہوگئی۔ اگر وہ باقی رہتا تو خطرہ تھا کہ لوگ اس کی انتہائی تعظیم کے پیش نظر اس کی پوجا شروع کردیں گے جیسا کہ اس سے ادنیٰ مقامات کے ساتھ جہلاء کا برتاؤ ہوتا ہے۔ لوگ اس کے ساتھ خیروشر کا عقیدہ وابستہ کرلیتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اسی اندیشے کی وجہ سے فرمایا کہ اس کا لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہوجانابھی اللہ کی رحمت تھی۔ (فتح الباري: 143/6) البتہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ سعید بن مسیب کا یہ کہنا کہ آئندہ سال لوگ اس جگہ کو نہ پہچان سکے، اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کی پہچان اٹھالی گئی تھی اور لوگوں کو بالکل اس کا علم نہ تھا کیونکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ سے نقل کیا ہے کہ اگر میں آج دیکھ سکتا تو ضرور تمھیں درخت کی جگہ دکھاتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بعینہ درخت کی جگہ پہچانتے تھے۔ ابن سعد نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ کوپتہ چلا کہ لوگ درخت کے پا س آکر ٹھہرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں تو آپ نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس سے منع فرمایا، پھر اس درخت کے کاٹ دینے کا حکم دیا، اس حکم کی تعمیل کی گئی اور درخت کو کاٹ دیا گیا، پھر اس کی جگہ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہوگئی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد: 100/2۔ وفتح الباري: 558/7) 3۔ واضح رہے کہ اس درخت کے نیچے لوگوں نے مسجد تعمیر کرلی تھی اور تبرک کے طور پر نماز پڑھتے تھے، چونکہ اسلام میں اس طرح کے تبرکات کی کوئی گنجائش نہیں اس لیے اسے ختم کردیا گیا۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4165