ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ انہیں برا نہ کہو ‘ کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کو جواب دیتے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین قریش کی ہجو کہنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میرے نسب کا کیا ہو گا؟ حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ کو ان سے اس طرح الگ کر لوں گا جیسے بال گندھے ہوئے آٹے سے کھینچ لیا جاتا ہے۔ اور محمد بن عقبہ (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ) نے بیان کیا ‘ ہم سے عثمان بن فرقد نے بیان کیا ‘ کہا میں نے ہشام سے سنا ‘ انہوں نے اپنے والد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا کیونکہ انہوں نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے میں بہت حصہ لیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4145]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4145
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت حسن بن ثابت ؓ رسول اللہ ﷺ کے ثناء خواہ اور مداح تھے اور آپ سے والہانہ محبت بھی کرتے تھے اس کے باوجود انھوں نے حضرت عائشہ ؓ پر بہتان لگانے والوں میں شرکت کی جس کی انھیں عمر بھر ندامت رہی لیکن حد قذف کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے گناہ کا کفارہ بنا دیا۔ 2۔ حضرت عائشہ ؓ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کی موجودگی میں حضرت حسان ؓ کو سخت الفاظ میں یاد کیا جائے۔ آپ فرماتی تھیں۔ حضرت حسان ؓ رسول اللہ ﷺ کے مداح تھے اور کفارکی ہجو کا جواب دیتے تھے۔ بہرحال ان حضرات کا دشمنان دین کی باتوں سے اتفاق کرنا کسی بھی صورت میں صحیح نہ تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4145