ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اگر گیلی نجاست پر تمہارے پاؤں پڑیں تو انہیں دھو ڈالو اور اگر نجاست خشک ہو تو دھونے کی ضرورت نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q408]
ہم سے سعید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابن شہاب نے حمید بن عبدالرحمٰن کے واسطہ سے بیان کیا کہ ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تھوکے تو اسے اپنے منہ کے سامنے یا دائیں طرف نہیں تھوکنا چاہیے، البتہ بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 408]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 408
حدیث حاشیہ: ترجمہ باب میں رینٹ کا ذکر تھا اورحدیث میں بلغم کا ذکر ہے۔ چونکہ یہ دونوں آدمی کے فضلے ہیں، اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے، حدیث مذکور میں نماز کی قیدنہیں ہے۔ مگرآگے یہی روایت آدم بن ابی ایاس سے آرہی ہے اس میں نماز کی قید ہے۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت مطلق ہے۔ یعنی نماز میں ہویا غیر نماز میں مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنامنع ہے۔ پچھلے باب میں تھوک کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے کا ذکر تھا اوریہاں کنکری سے کھرچنے کا ذکر ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی ایسا کیا، کبھی ایسا کیا، دونوں طرح سے مسجد کو صاف کرنا مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 408
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:408
حدیث حاشیہ: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاریؒ ان حضرات کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے مذکورہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ناک کی رطوبت کو ناپاک قراردیا ہے، ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بذات خود اس کام کو سر انجام دینا صرف مسجد کی نظافت کے پیش نظر نہ تھا، بلکہ آپ مسجد کو نجاست سے پاک کرنا چاہتے تھے، لیکن ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ کے پیش نظر ان حضرات کی تردید ہی ہو، کیونکہ امام بخاری نے عام طور پر اپنے تراجم میں ایسی چیزوں کو ملحوظ رکھا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کا اثر بھی شاید اسی مقصد کے پیش نظر ذکر کیا ہو کہ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اس کی عمدہ توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے پاس ایک حدیث متعدد سندوں سے ہوتی ہے تو وہ ان تمام سندوں کو ایک جگہ ذکر نہیں کرتے بلکہ ان کی عادت ہے کہ ہر روایت کو مستقل عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں اور الفاظ حدیث کی رعایت سے عنوان اور ترجمہ میں تنوع پیدا کر دیتے ہیں اور اصل مقصد اس حدیث کی مختلف سندوں کا ذکرکرنا ہوتا ہے کہ وگرنہ باب البزاق اور باب المخاط دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ امام بخاریؒ کا مقصد بعض اوقات ابواب نہیں، بلکہ روایات ہوتی ہیں چنانچہ یہاں بھی مقصود ابواب نہیں بلکہ روایات ہیں۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 408