الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4662
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہمیں یہ دیکھ کر بتائے گا کہ ابوجہل کا کیا بنا؟“ تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ چل پڑے اور اسے اس حال میں دیکھا کہ اسے عفراء کے دو بیٹوں نے تلوار مار کر زمین پر گرا دیا ہے۔ تو ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی داڑھی پکڑ کر پوچھا، کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ تو اس نے جواب دیا، کیا اس آدمی سے بڑا بھی تم نے قتل کیا ہے، یا اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4662]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
حتي برك:
حتیٰ کہ وہ گر گیا،
بعض نسخوں میں ہے۔
حتي برد یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا پڑ گیا،
یعنی اس کو اتنا گہرا زخم لگ چکا تھا کہ اب اس کا زندہ رہنا ممکن نہ تھا،
آخری سانسوں پر تھا۔
(2)
هِل فَوق رَجُل قَتَلتُمُوه:
امام نووی نے معنی کیا ہے،
تمہارا مجھے قتل کرنا میرے لیے عار و ننگ کا باعث نہیں ہے،
یعنی لڑ کر مرنا شرم و عار کا باعث نہیں ہے۔
(3)
فَلَو غَيرَ اَكَّار قَتَلَني:
اے کاش مجھے ایک کسان کے علاوہ کوئی قتل کرتا۔
معاذ اور معوذ دونوں انصاری تھے اور انصار کاشت کار لوگ تھے،
جن کو عرب حقیر اور کم حیثیت خیال کرتے تھے،
اس لیے اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اے کاش مجھے میرے ہم پلہ قریشی قتل کرتے۔
فیصلہ کن وار کرنے والے تو حضرت معاذ بن عمرو بن جموح تھے،
لیکن اس پر وار کرنے میں معاذ اور معوذ دونوں بھائی ٹھیک تھے اور سر کاٹ کر لانے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور آپﷺ نے سلب معاذ بن عمرو بن جموح کو دی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4662