لیکن جب ابولبابہ بشیر بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ نے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے، ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نکلنے والے سانپ کے مارنے سے منع فرمایا تھا تو انہوں نے بھی اسے مارنا چھوڑ دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4017]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4017
حدیث حاشیہ: گھریلو سانپوں کی بعض قسمیں بے ضررہوتی ہیں۔ فرمان نبوی سے وہی سانپ مراد ہیں۔ ابو لبابہ بدری صحابی کا ذکر مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4017
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4017
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابو البابہ بشیر بن عبدالمنذر بدری صحابی ہیں۔ یہ کسی وجہ سے بدر کی لڑائی میں براہ راست شریک نہیں ہو سکے تھے البتہ رسول اللہﷺ نے انھیں مال غنیمت اور اس کے اجرو ثواب میں شریک قراردیا تھا۔ (فتح الباري: 400/7) 2۔ عام طور پر سفیداور پتلے سانپ گھروں میں بر آمد ہوتے ہیں اور جن ان کی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے انھیں مارنے سے منع فرمایا: (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5256) 3۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تین دن تک انھیں وارننگ دی جائے اگر نہ جائیں تو انھیں مارنے کی اجازت ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4017
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3535
´دو دھاری سانپ کو قتل کر دینے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سانپوں کو مار ڈالو، دو دھاری اور دم کٹے سانپ کو ضرور مارو، اس لیے کہ یہ دونوں آنکھ کی بینائی زائل کر دیتے اور حمل کو گرا دیتے ہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3535]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) لکیروں والے سانپ سے مراد ایک خاص قسم کا سانپ ہے جس کی پیٹھ پر دو لکیریں ہوتی ہیں۔
(2) دم کٹے سانپ سے مراد وہ سانپ ہے جس کی دم دوسرے سانپوں کی طرح مخروطی نہیں ہوتی بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے دم کاٹ دی گئی ہو۔
(3) یہ سانپ زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کے کاٹنے سے آدمی کی بینائی ختم ہوسکتی ہے۔ اور عورت کا حمل ساقط ہوسکتا ہے۔
(4) سانپ کی بہت سی قسمیں زہریلی نہیں ہوتیں انہیں مارنا ضروری نہیں۔
(5) گھر میں سانپ نظر آئے تو اسے تنبیہ کرنی چاہیے۔ کہ چلا جا ورنہ ہم تجھے مار دیں گے۔ (صحیح مسلم، السلام، باب قتل الحیات وغیرھا، حدیث: 2236) اگر وہ جن ہوگا توچلا جائےگا۔ ورنہ اسے ماردیا جائے۔
(6) صحیح مسلم کی حدیث میں ہے۔ (حرجواعلیھا ثلاثا) (حوالہ مذکورہ بالا) اس کی تشریح دوطرح سے کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ اسے تین بار تنبیہ کرو۔ اگر اس کے بعد بھی نظر آئے تو ماردو۔ (فتح الباری: 6/ 420)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3535
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1483
´سانپ مارنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سانپوں کو مارو، خاص طور سے اس سانپ کو مارو جس کی پیٹھ پہ دو (کالی) لکیریں ہوتی ہیں اور اس سانپ کو جس کی دم چھوٹی ہوتی ہے اس لیے کہ یہ دونوں بینائی کو زائل کر دیتے ہیں اور حمل کو گرا دیتے ہیں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1483]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ان دونوں میں ایسا زہر ہوتا ہے کہ انہیں دیکھنے والا نابینا ہوجاتا ہے اور حاملہ کا حمل گر جاتا ہے۔
2؎: یہ ممانعت اس لیے ہے کہ یہ جن وشیاطین بھی ہوسکتے ہیں، انہیں مارنے سے پہلے وہاں سے غائب ہوجانے یا اپنی شکل تبدیل کرلینے کی تین بارآگاہی دے دینی چاہئے، اگروہ وہاں سے غائب نہ ہو پائیں یا اپنی شکل نہ بدلیں تووہ ابوسعید خدری سے مروی حدیث کی روشنی میں انہیں مار سکتے ہیں۔
3؎: زید بن خطاب عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہما) کے بڑے بھائی ہیں، یہ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام لائے، بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے، ان سے صرف ایک حدیث گھروں میں ر ہنے والے سانپوں کو نہ مارنے سے متعلق آئی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1483