الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5127
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غنیمت سے ایک عمر رسیدہ اونٹنی ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اور عمر رسیدہ اونٹنی دے دی، تو ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے دروازہ پر بیٹھا اور میں چاہتا تھا کہ ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر لاؤں اور میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا، میں اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی پر ولیمہ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شَارِف ج شَرِف:
عمر رسیدہ اونٹنی۔
(2)
قَيْنَةٌ:
گلوکارہ،
گانےوالی لونڈی۔
(3)
النِّوَاءِ:
ناوية کی جمع ہےفربہ۔
(4)
لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ «فربہ،
موٹی،
عمر رسیدہ اونٹنیاں۔
(5)
ثَارَ إِلَيْهِا:
ان پر جھپٹے۔
(6)
جَبَّ «کاٹا۔
(7)
أَسْنِمَة:
سنام کی جمع ہے کوہان۔
(8)
بَقَرَ:
نحرکیا،
پھاڑا۔
(9)
خَوَاصِر:
خاصرة کی جمع ہے،
کوکھ۔
(10)
أَكْبَادِ،
كبد:
کلیجہ،
جگر۔
(11)
أَفْظَعَنِي:
رمجھے مصیبت وپریشانی میں ڈال دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5127
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5129
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن غنیمت میں میرے حصہ ایک عمر رسیدہ اونٹنی آئی اور ایک عمر رسیدہ اونٹنی اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس (پانچواں حصہ) میں سے عنایت فرمائی، تو جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی رخصتی کا ارادہ کیا، یا شب زفاف گزارنے کا ارادہ کیا، میں نے بنو قینقاع کے ایک کاریگر (سنار) سے اپنے ساتھ جانے کا وعدہ لیا، تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں، میں نے چاہا، اس کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5129]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شرب:
شارب کی جمع ہے،
شرابی پارٹی کوکہتے ہیں۔
(2)
يقهقر:
الٹے پاؤں لوٹنے لگے اورنكص علي عقبيه کا بھی یہی مفہوم ہے۔
(3)
ثمل:
نشہ میں مبتلا،
نشئی۔
(4)
اقتاب:
قتب پالان۔
(5)
غرائر:
غرارہ بورے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں،
(1)
انسان محنت و مزدوری کرتے ہوئے گھاس کاٹ کر بیچ سکتا ہے اور کسی کام میں کافر سے تعاون لے سکتا ہے۔
(2)
نشہ کی حالت میں انسان کو پتہ نہیں چلتا،
میں کیا کہہ رہا ہوں اور کسے کہہ رہا ہوں،
مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں۔
(3)
مظلوم اپنی داستان سنا سکتا ہے اور اس کی فریاد رسی کرنا چاہیے۔
(4)
انسان اپنے گھر میں اوپر والی چادر اتار سکتا ہے اور اگر کہیں جانا ہو تو پھر مکمل لباس میں جانا چاہیے۔
(5)
بڑا انسان بھی کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے گا اور اس کو اجازت اس کے سب ساتھ والوں کے لیے ہو گی۔
(6)
انسان جب اندوہناک منظر دیکھتا ہے،
تو اس پر آنسو بہا سکتا ہے۔
(7)
انسان جب شراب پی لیتا ہے،
تو نشہ میں دھت ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے محروم ہو جاتا ہے،
اس لیے شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
(8)
انسان کو خطرہ کے وقت اپنا تحفظ کرنا چاہیے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے کی بجائے الٹے پاؤں واپس لوٹے ہیں،
کہ شراب میں دھت حمزہ کوئی غلط اقدام ہی نہ کر بیٹھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5129
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2375
2375. حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میں نے بدر کے دن مال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حاصل کی اور ایک اونٹنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا کی تھی۔ میں نے ایک دن ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری شخص کے دروازے پر بٹھا دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ان پر اذخر گھاس لا کر فروخت کروں۔ میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کی مدد حاصل کروں اور اذخر فروخت کر کے حضرت فاطمہ ؓ سے شادی کا ولیمہ کروں۔ اس وقت حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس گھر میں مے نوشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی عورت بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرع گایا: اے حمزہ! اٹھو فر بہ جوان اونٹنیوں کے لیے، تو حمزہ ؓ تلوار لے کر ان کی طرف جھپٹ پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ بھی پھاڑ ڈالے، پھر ان دونوں کی کلیجیاں نکال لیں۔ (راوی حدیث ابن جریج کہتے ہیں کہ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2375]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں بیان کردہ واقعات اس وقت سے متعلق ہے جب کہ اسلام میں شراب، گانا سننا حرام نہ ہوا تھا۔
بدر کے اموال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حضرت علی ؓ کو بطور مال غنیمت ملی تھی۔
اور ایک اونٹنی آنحضرت ﷺ نے ان کو بطور صلہ رحمی اپنے خاص حصہ میں سے مرحمت فرما دی تھی۔
چنانچہ ان کا ارادہ ہوا کہ کیوں نہ ان اونٹنیوں سے کام لیا جائے۔
اور ان پر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے لاد کر لائی جائے اور اسے بازار میں فروخت کیا جائے۔
تاکہ ضروریات شادی کے لیے جو ہونے ہی والی تھی کچھ سرمایہ جمع ہوجائے۔
اس کاروبار میں ایک دوسرے انصاری بھائی اور ایک بنی قینقاع کے سناربھی شریک ہونے والے تھے۔
حضرت علی ؓ ان ہی عزائم کے ساتھ اپنی ہر دو سواریوں کو لے کر اس انصاری مسلمان کے گھر پہنچے۔
اوراس کے دروازے پر جا کر ہر دو اونٹنیوں کو باندھ دیا۔
اتفاق کی بات ہے کہ اس انصاری کے اسی گھر میں اس وقت حضرت حمزہ ؓ شراب نوشی اور گانا سننے میں محو تھے۔
گانے والی نے جب ان اونٹنیوں کو دیکھا اور ان کی فربہی اور جوانی پر نظر ڈالی اور ان کا گوشت بہت ہی لذیذ تصور کیا تو اس نے عالم مستی میں حضرت حمزہ ؓ کو گاتے گاتے یہ مصرع بھی بنا کر سنا دیا جو روایت میں مذکور ہے۔
(پوار شعر یوں ہے)
ألا یا حمز للشرف النواء و هن معقلات بالفناء حمزہ! اٹھو یہ عمر والی موٹی اونٹیاں جو مکان کے صحن میں بندھی ہوئی ہیں، ان کو کاٹو، اور ان کا گوشت بھون کر کھاؤ اور ہم کو کھلاؤ۔
حضرت حمزہ ؓ پر مستی سوارتھی، شعر سنتے ہی فوراً تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور عالم بے ہوشی میں ان ہر دو اونٹنیوں پر حملہ کر دیا اور ان کے کلیجے نکال کر، کوہان کاٹ کر گوشت کا بہترین حصہ کباب کے لیے لے آئے۔
حضرت علی ؓ نے یہ جگر خراش منظر دیکھا تو اپنے محترم چچا کا احترام سامنے رکھتے ہوئے وہاں ایک لفظ زبان پر نہ لائے بلکہ سیدھے آنحضر ت ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔
اس وقت زید بن حارثہ ؓ بھی وہاں موجود تھے۔
چنانچہ آپ نے سار واقعہ آنحضرت ﷺ کو سنایا اور اپنی اس پریشانی کو تفصیل سے بیان کیا۔
جسے سن کر آنحضرت ﷺ زید بن حارثہ ؓ اور آپ کو ہمراہ لے کر فوراً ہی موقع پر معائنہ فرمانے کے لیے چل کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ ؓ کے پاس پہنچے جو کہ ابھی تک شراب اور کباب کے نشہ میں چور تھے۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ پر اظہار خفگی فرمایا مگر حمزہ کے ہوش و حواس شراب و کباب میں گم تھے۔
وہ صحیح غور نہ کرسکے بلکہ الٹا اس پر خود ہی اظہار خفگی فرمایا۔
اور وہ الفاظ کہے جو روایت میں مذکورہیں۔
مولانا فرماتے ہیں حضرت حمزہ اس وقت نشہ میں تھے۔
اس لیے ایسا کہنے سے وہ گنہگار نہیں ہوئے دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور آنحضرت ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ اور حضرت علی ؓ کے والد حضرت ابوطالب دونوں ان کے لڑکے تھے اور لڑکا گویا اپنے باپ کا غلام ہی ہوتا ہے۔
یہ حالات دیکھ کر آنحضرت ﷺ خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔
اس وقت یہی مناسب تھا۔
شاید حمزہ کچھ اور کہہ بیٹھتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ ان کا نشہ اترنے کے بعد آپ ﷺ نے ان سے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی ؓ کو دلوائی۔
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ ان پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں، اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2375
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3091
3091. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3091]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث کو حضرت امام یہاں اس لئے لائے کہ اس میں اموال غنیمت کے خمس میں سے حضرت على ؓ کو ایک جوان اونٹنی ملنے کا ذکر ہے۔
یہ اونٹنی اس مال میں سے تھی جو عبداللہ بن جحش ؓ کی ماتحت فوج نے حاصل کیا تھا۔
یہ جنگ بدر سے دومہینے پہلے کا واقعہ ہے۔
اس وقت تک خمس کاحکم نہیں اتراتھا۔
لیکن عبداللہ بن جحش ؓنے چار حصے تو فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ اپنی رائے سے آنحضرت ﷺ کے لئے رکھ چھوڑا۔
پھر قرآن شریف میں بھی ایسا ہی حکم نازل ہوا۔
دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت حمزہ ؓ کے پاس ایک گانے والی بھی تھی جس نے گانے کے دوران ان جوان اونٹنیوں کے کلیجے سے کباب بنانے اورکھانے کی حضرت حمزہ ؓ کو ترغیب دلائی اور اس پر وہ نشے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور ان اونٹنیوں کو کاٹ کر ان کے کلیجے نکال لئے۔
حضرت علی ؓ کا صدمہ بھی بجا تھا اور پاس ادب بھی ضروری‘ اس لئے وہ غصہ کو پی کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔
آنحضرت ﷺ مقدمہ کے حالات کا معائنہ فرمانے کے لئے خود تشریف لے گئے۔
حضرت حمزہ ؓ اس وقت نشہ میں چور تھے۔
شراب اسوقت تک حرام نہیں ہوئی تھی‘ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ ؓ کے منہ سے بے ادبی کے الفاظ نکل گئے۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کے ہوش میں آنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ان اونٹنیوں کا تاوان دلایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3091
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2089
2089. حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹ حصے میں ملا اور نبی ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹ خمس میں سےدیا۔ جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول اللہ ﷺ کی رخصتی کرانے کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع کے ایک زرگر سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر کاٹ کر لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں کے پاس فروخت کرکے اپنی شادی کے ولیمے میں اس سے کچھ مدد حاصل کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2089]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی سناروں کا ذکر ہے۔
جس سے عہد رسالت میں اس پیشہ کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ رزق حلال تلاش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہئے۔
جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود جاکر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے فروخت کی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ دولہا کی طرف سے ہوتا ہے۔
بنی قینقاع مدینہ میں یہودیوںکے ایک خاندان کا نام تھا۔
علی بن حسین امام زین العابدین کا نام ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔
کنیت ابوالحسن ہے۔
اکابر سادات میں سے تھے۔
تابعین میں جلیل القدر اور شہرت یافتہ تھے۔
امام زہری نے فرمایا کہ قریش میں کسی کو میں نے ان سے بہتر نہیں پایا۔
94ھ میں اتنقال فرمایا۔
بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ اثنا عشرہ کی روایتیں نہیں لی ہیں۔
ان معترضین کے جواب میں امام زین العابدین کی یہ روایت موجو دہے جو ائمہ اثنا عشر میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2089
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5793
5793. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5793]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاں چادر اوڑھ کر چلنے لگے، باب سے یہی مطابقت ہے مفصل حدیث کئی جگہ ذکر میں آچکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5793
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2375
2375. حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میں نے بدر کے دن مال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حاصل کی اور ایک اونٹنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا کی تھی۔ میں نے ایک دن ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری شخص کے دروازے پر بٹھا دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ان پر اذخر گھاس لا کر فروخت کروں۔ میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کی مدد حاصل کروں اور اذخر فروخت کر کے حضرت فاطمہ ؓ سے شادی کا ولیمہ کروں۔ اس وقت حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس گھر میں مے نوشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی عورت بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرع گایا: اے حمزہ! اٹھو فر بہ جوان اونٹنیوں کے لیے، تو حمزہ ؓ تلوار لے کر ان کی طرف جھپٹ پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ بھی پھاڑ ڈالے، پھر ان دونوں کی کلیجیاں نکال لیں۔ (راوی حدیث ابن جریج کہتے ہیں کہ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2375]
حدیث حاشیہ:
(1)
اذخر ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس ہے، اسے سنار بھی استعمال کرتے ہیں۔
حضرت علی ؓ چاہتے تھے کہ اونٹنیوں پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں گا اور اسے کسی زرگر کے پاس فروخت کر کے اپنی شادی کا ولیمہ کروں گا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس طویل روایت سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنگل سے گھاس کاٹنا اور اسے فروخت کرنا جائز ہے۔
اذخر ایک ایسی گھاس ہے جسے کوئی اپنے لیے مخصوص نہیں کر سکتا، الا یہ کہ وہ اس کی ملکیتی زمین میں ہو۔
ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جو شخص بھی اسے پہلے کاٹ لے گا وہی اس کا مالک ہو گا۔
بہرحال جلانے کی لکڑی اور گھاس وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2375
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3091
3091. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3091]
حدیث حاشیہ:
1۔
مدنی دورکے آغاز میں شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمان شراب نوشی کرتے تھے۔
غزوہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی قطعی حرمت کے احکام نازل فرمائے۔
حضرت حمزہ ؓ سے نشے کی حالت میں خلاف ادب الفاظ صادر ہوئے اس لیے رسول اللہ ﷺنے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
البتہ اونٹنیوں کو ہلاک کرنے کا مالی تاوان ضروری تھا۔
رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ﷺ کو تاوان دلایا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ؒنے مصنف ابن شیبہ ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے ہوش آنے کے بعد رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہلاک شدہ اونٹنیوں کا حضرت حمزہ ؓ سے تاوان دلایا۔
(فتح الباري: 241/6)
2۔
اس لمبی حدیث کو امام بخاری ؒنے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں مال غنیمت کے خمس سے حضرت علی ؓکو ایک جوان اونٹنی دینے کا ذکر ہے۔
3۔
واضح رہے کہ خمس کی آیت بدر کی غنیمت کے متعلق نازل ہوئی اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا۔
اس میں سے ایک اونٹنی حضرت علی ؓ کو ملی تھی اور دوسری اونٹنی رسول اللہ ﷺنے انھیں مال خمس سے دی تھی جو آپ کو غنیمت کے مال سے حاصل ہوا تھا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3091
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5793
5793. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5793]
حدیث حاشیہ:
یہ ایک لمبی حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اختصار سے بیان کیا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حرمت شراب سے پہلے شراب نوشی کی، پھر انہوں نے نشے کی حالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو اونٹنیوں کو ذبح کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ چادر زیب تن کیے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقصان کی تلافی کریں، لیکن اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں دھت تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چادر پہننا ثابت کیا ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں چادر پہننے کا ذکر آیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5793