الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
12. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4003
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَيْهِمُ السَّلَام أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيًّا، قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ , فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا فِي بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ , فَأَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَنَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي , فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مِنَ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ حَتَّى جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ , فَإِذَا أَنَا بِشَارِفَيَّ قَدْ أُجِبَّتْ أَسْنِمَتُهَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا , فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ الْمَنْظَرَ، قُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ عِنْدَهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابُهُ، فَقَالَتْ: فِي غِنَائِهَا أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ فَوَثَبَ حَمْزَةُ إِلَى السَّيْفِ , فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ وَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ:" مَا لَكَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ , فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَى، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْهِ , فَأُذِنَ لَهُ فَطَفِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ , فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ , فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي , فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ , فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس بن یزید نے خبر دی، (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہم کو احمد بن صالح نے خبر دی، ان سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، انہیں علی بن حسین (امام زین العابدین) نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر کی غنیمت میں سے مجھے ایک اور اونٹنی ملی تھی اور اسی جنگ کی غنیمت میں سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو خمس کے طور پر حصہ مقرر کیا تھا اس میں سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی۔ پھر میرا ارادہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کرا لاؤں۔ اس لیے بنی قینقاع کے ایک سنار سے بات چیت کی کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اس گھاس کو سناروں کے ہاتھ بیچ دوں گا اور اس کی قیمت ولیمہ کی دعوت میں لگاؤں گا۔ میں ابھی اپنی اونٹنی کے لیے پالان، ٹوکرے اور رسیاں جمع کر رہا تھا۔ اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے حجرہ کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں جن انتظامات میں تھا جب وہ پورے ہو گئے تو (اونٹنیوں کو لینے آیا) وہاں دیکھا کہ ان کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں اور کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا۔ میں نے پوچھا، یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اور وہ ابھی اسی حجرہ میں انصار کے ساتھ شراب نوشی کی ایک مجلس میں موجود ہیں۔ ان کے پاس ایک گانے والی ہے اور ان کے دوست احباب ہیں۔ گانے والی نے گاتے ہوئے جب یہ مصرع پڑھا۔ ہاں، اے حمزہ! یہ عمدہ اور فربہ اونٹنیاں ہیں، تو حمزہ رضی اللہ عنہ نے کود کر اپنی تلوار تھامی اور ان دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے غم کو پہلے ہی جان لیا اور فرمایا کہ کیا بات پیش آئی؟ میں بولا: یا رسول اللہ! آج جیسی تکلیف کی بات کبھی پیش نہیں آئی تھی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے میری دونوں اونٹنیوں کو پکڑ کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھ چیر ڈالی ہے۔ وہ یہیں ایک گھر میں شراب کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک منگوائی اور اسے اوڑھ کر آپ تشریف لے چلے۔ میں اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ساتھ ساتھ ہولئے۔ جب اس گھر کے قریب آپ تشریف لے گئے اور حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا اس پر انہیں تنبیہ فرمائی۔ حمزہ رضی اللہ عنہ شراب کے نشے میں مست تھے اور ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر اٹھائی، پھر ذرا اور اوپر اٹھائی اور آپ کے گھٹنوں پر دیکھنے لگے، پھر اور نظر اٹھائی اور آپ کے چہرہ پر دیکھنے لگے۔ پھر کہنے لگے، تم سب میرے باپ کے غلام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ وہ اس وقت بیہوش ہیں۔ اس لیے آپ فوراً الٹے پاؤں اس گھر سے باہر نکل آئے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4003]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريما رأيت كاليوم عدا حمزة على ناقتي فأجب أسنمتهما وبقر خواصرهما وههوذا في بيت معه شرب فدعا النبي بردائه فارتدى ثم انطلق يمشي واتبعته أنا وزيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن عليه فأذن له فطفق النبي يلوم حمزة فيما فعل فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه ف
   صحيح البخاريدعا النبي بردائه ثم انطلق يمشي واتبعته أنا وزيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن فأذنوا لهم
   صحيح البخاريأعطاني شارفا من الخمس فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه الصواغين وأستعين به في وليمة عرسي فبينا أنا أجمع لشارفي متاعا من الأقتاب والغرائر والحبال وشارفاي مناخان إلى جنب حجرة رجل م
   صحيح البخاريلي شارف من نصيبي من المغنم وكان النبي أعطاني شارفا من الخمس فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه من الصواغين وأستعين به في وليمة عرسي
   صحيح مسلمأصبت شارفا مع رسول الله في مغنم يوم بدر وأعطاني رسول الله شارفا أخرى فأنختهما يوما عند باب رجل من الأنصار وأنا أريد أن أحمل عليهما إذخرا لأبيعه ومعي صائغ من بني قينقاع فأستعين به على وليمة فاطمة وحمزة بن عبد المطلب يشرب في ذلك البيت معه قينة تغنيه فقالت أ
   صحيح مسلملي شارف من نصيبي من المغنم يوم بدر وكان رسول الله أعطاني شارفا من الخمس يومئذ فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه من الصواغين فأستعين به في وليمة عرسي فبينا أنا أجمع لشارفي متاعا من ال
   سنن أبي داوددعا رسول الله بردائه فارتداه ثم انطلق يمشي واتبعته أنا و زيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن فأذن له فإذا هم شرب فطفق رسول الله يلوم حمزة فيما فعل فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه فنظر حمزة إلى رسول الله ثم صعد النظر فنظر إلى ركبتيه ثم صعد النظر فنظ
   صحيح البخارياصبت شارفا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مغنم يوم بدر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4003 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4003  
حدیث حاشیہ:
اس وقت تک شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔
حضرت امیر حمزہ ؓ نے حالت مدہوشی میں یہ کام کردیا اور جو کچھ کہا نشے کی حالت میں کہا۔
دوسری روایت میں ہے کہ حمزہ ؓ کا نشہ اترنے کے بعد آنحضرت ﷺ نے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی ؓ کو دلوا دی تھی۔
روایت میں حضرت علی ؓ کو بدر کا حصہ ملنے کا ذکر ہے۔
باب اور حدیث میں یہی وجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4003   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4003  
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں غزوہ بدر کا تذکرہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غنیمت بدر سے حضرت علی ؓ کو ایک جوان اونٹنی دی تھی۔

حضرت حمزہ ؓ نے جو کچھ کیا اور کہا وہ نشے کی حالت میں کیا اور کہا۔
اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ یہ حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، المساقاة، حدیث: 2375)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کا نشہ اترنے کے بعد ان اونٹنیوں کی قیمت ان سے حضرت علی ؓ کو دلوادی تھی۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غزوہ بدر کے بعد سیدہ فاطمہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4003   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2375  
´بدری صحابیوں کی فضیلت `
«. . . فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ، وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا. . .»
حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا: ہاں: اے حمزہ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف (بڑھ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی (ابن جریج نے بیان کیا کہ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2375]
تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں پانچ مقامات پر موجود ہے:
[2089، 2375، 3091، 4003، 5793 مختصراً ومطولاً]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحيح مسلم [1979 وترقيم دارالسلام: 5127۔ 5130]
صحيح ابن حبان [الاحسان 7؍34 ح4519 دوسرا نسخه: 4536]
صحيح ابي عوانه [5؍248، 249، 250، 251، 252]
وسنن ابي داود [2986]
والسنن الكبريٰ للبيهقي [6؍153، 341، 342]
ومسند ابي يعليٰ [547]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے یہ حدیث امام أحمد رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ دیکھئیے
مسند أحمد بن حنبل [1؍142 ح1200]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت صحیح ثابت اور مشہور ہے۔
اس سلسلے میں چند اہم معلومات درج ذیل ہیں:
① یہ واقعہ غزوہ احد 3ھ سے پہلے اور غزوہ بدر 2ھ کے بعد کا ہے۔
② شراب (خمر) کی حرمت کا حکم 6ھ یا 7ھ میں نازل ہوا۔ اس سے پہلے شراب حرام نہیں تھی۔
③ اس حدیث میں ذکر کردہ دور میں گانے والی لونڈیوں کا گانا حرام نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ اس روایت میں موسیقی کے آلات کا ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈی کا (آواز سے) گانا مذکور ہے۔ گانے بجانے کی حرمت دوسری احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ديكهئے: [صحيح بخاري: 5590]
لہٰذا اس روایت سے گانے بجانے کے جواز پر استدلال کرنا منسوخ ہے۔
④ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے نا کا صدور بھی ثابت ہے ديكهئے: [صحيح بخاري: 6820 وصحيح مسلم: 1691]
⑤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بخشے ہوئے اور جنتی ہیں۔
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اطلع الله على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم»
بدری صحابیوں کے سامنے اللہ ظاہر ہوا اور فرمایا جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [مسند أحمد 2؍295 ح7940 وسنده حسن]
سیدنا امیر حمزہ البدری رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نشے کی وجہ سے تھا، انہیں اللہ نے بخش دیا اور جنت الفردوس میں داخل کر دیا ہے، لہٰذا منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ صحابہ کا یہ کردار خلاف قرآن سمجھا جائے گا۔ مردود ہے کیونکہ یہ واقعہ حرمت خمر سے پہلے کا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 24   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2986  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2986]
فوائد ومسائل:

یہ واقعہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
اور اس گانے والی کے شعر یوں تھے۔
ترجمہ۔
اے حمزہ اٹھو۔
اور یہ موٹی موٹی اونٹنیاں جو میدان میں بندھی ہیں۔
ان کے حلقوں پرچھری رکھو۔
اور انہیں خونم خون کردو۔
اور ان کا عمدہ عمدہ گوشت پکا ہوا یا بھنا ہوا اپنے شراب پینے والے ساتھوں کوپیش کرو ان اشعار کا مقصد حمزہ کے جزبہ سخاوت کو غلط طریق پر ابھارنا تھا۔
حضرت حمزہ نے ان کے اکسانے پر اپنے بھتیجے کی پونجی جو اونٹوں پر مشتمل تھی۔
برباد کر ڈالی۔


اہل بیت کےافراد کو جہاد میں سے غنیمت کا حصہ ملتا تھا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب ضرورت خمس سے مذید بھی عنایت فرمایا کرتے تھے۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد محنت مزدوری اور مشقت سے اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔


انسان کسی وجہ سے عقل وشعورسے عاری ہوجائے تو خاص اس حالت میں تادیب مفید نہیں ہوسکتی۔
بلکہ اس سے دور جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2986   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5127  
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غنیمت سے ایک عمر رسیدہ اونٹنی ملی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اور عمر رسیدہ اونٹنی دے دی، تو ایک دن میں نے ان دونوں کو ایک انصاری کے دروازہ پر بیٹھا اور میں چاہتا تھا کہ ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر لاؤں اور میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا، میں اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی پر ولیمہ کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5127]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شَارِف ج شَرِف:
عمر رسیدہ اونٹنی۔
(2)
قَيْنَةٌ:
گلوکارہ،
گانےوالی لونڈی۔
(3)
النِّوَاءِ:
ناوية کی جمع ہےفربہ۔
(4)
لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ «‏‏‏‏فربہ،
موٹی،
عمر رسیدہ اونٹنیاں۔
(5)
ثَارَ إِلَيْهِا:
ان پر جھپٹے۔
(6)
جَبَّ «‏‏‏‏کاٹا۔
(7)
أَسْنِمَة:
سنام کی جمع ہے کوہان۔
(8)
بَقَرَ:
نحرکیا،
پھاڑا۔
(9)
خَوَاصِر:
خاصرة کی جمع ہے،
کوکھ۔
(10)
أَكْبَادِ،
كبد:
کلیجہ،
جگر۔
(11)
أَفْظَعَنِي:
رمجھے مصیبت وپریشانی میں ڈال دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5127   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5129  
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بدر کے دن غنیمت میں میرے حصہ ایک عمر رسیدہ اونٹنی آئی اور ایک عمر رسیدہ اونٹنی اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس (پانچواں حصہ) میں سے عنایت فرمائی، تو جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی رخصتی کا ارادہ کیا، یا شب زفاف گزارنے کا ارادہ کیا، میں نے بنو قینقاع کے ایک کاریگر (سنار) سے اپنے ساتھ جانے کا وعدہ لیا، تاکہ ہم اذخر گھاس لائیں، میں نے چاہا، اس کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5129]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شرب:
شارب کی جمع ہے،
شرابی پارٹی کوکہتے ہیں۔
(2)
يقهقر:
الٹے پاؤں لوٹنے لگے اورنكص علي عقبيه کا بھی یہی مفہوم ہے۔
(3)
ثمل:
نشہ میں مبتلا،
نشئی۔
(4)
اقتاب:
قتب پالان۔
(5)
غرائر:
غرارہ بورے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں،
(1)
انسان محنت و مزدوری کرتے ہوئے گھاس کاٹ کر بیچ سکتا ہے اور کسی کام میں کافر سے تعاون لے سکتا ہے۔
(2)
نشہ کی حالت میں انسان کو پتہ نہیں چلتا،
میں کیا کہہ رہا ہوں اور کسے کہہ رہا ہوں،
مجھے یہ کہنا چاہیے یا نہیں۔
(3)
مظلوم اپنی داستان سنا سکتا ہے اور اس کی فریاد رسی کرنا چاہیے۔
(4)
انسان اپنے گھر میں اوپر والی چادر اتار سکتا ہے اور اگر کہیں جانا ہو تو پھر مکمل لباس میں جانا چاہیے۔
(5)
بڑا انسان بھی کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے گا اور اس کو اجازت اس کے سب ساتھ والوں کے لیے ہو گی۔
(6)
انسان جب اندوہناک منظر دیکھتا ہے،
تو اس پر آنسو بہا سکتا ہے۔
(7)
انسان جب شراب پی لیتا ہے،
تو نشہ میں دھت ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے محروم ہو جاتا ہے،
اس لیے شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
(8)
انسان کو خطرہ کے وقت اپنا تحفظ کرنا چاہیے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے کی بجائے الٹے پاؤں واپس لوٹے ہیں،
کہ شراب میں دھت حمزہ کوئی غلط اقدام ہی نہ کر بیٹھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5129   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2375  
2375. حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میں نے بدر کے دن مال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حاصل کی اور ایک اونٹنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا کی تھی۔ میں نے ایک دن ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری شخص کے دروازے پر بٹھا دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ان پر اذخر گھاس لا کر فروخت کروں۔ میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کی مدد حاصل کروں اور اذخر فروخت کر کے حضرت فاطمہ ؓ سے شادی کا ولیمہ کروں۔ اس وقت حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس گھر میں مے نوشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی عورت بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرع گایا: اے حمزہ! اٹھو فر بہ جوان اونٹنیوں کے لیے، تو حمزہ ؓ تلوار لے کر ان کی طرف جھپٹ پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ بھی پھاڑ ڈالے، پھر ان دونوں کی کلیجیاں نکال لیں۔ (راوی حدیث ابن جریج کہتے ہیں کہ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2375]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں بیان کردہ واقعات اس وقت سے متعلق ہے جب کہ اسلام میں شراب، گانا سننا حرام نہ ہوا تھا۔
بدر کے اموال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حضرت علی ؓ کو بطور مال غنیمت ملی تھی۔
اور ایک اونٹنی آنحضرت ﷺ نے ان کو بطور صلہ رحمی اپنے خاص حصہ میں سے مرحمت فرما دی تھی۔
چنانچہ ان کا ارادہ ہوا کہ کیوں نہ ان اونٹنیوں سے کام لیا جائے۔
اور ان پر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے لاد کر لائی جائے اور اسے بازار میں فروخت کیا جائے۔
تاکہ ضروریات شادی کے لیے جو ہونے ہی والی تھی کچھ سرمایہ جمع ہوجائے۔
اس کاروبار میں ایک دوسرے انصاری بھائی اور ایک بنی قینقاع کے سناربھی شریک ہونے والے تھے۔
حضرت علی ؓ ان ہی عزائم کے ساتھ اپنی ہر دو سواریوں کو لے کر اس انصاری مسلمان کے گھر پہنچے۔
اوراس کے دروازے پر جا کر ہر دو اونٹنیوں کو باندھ دیا۔
اتفاق کی بات ہے کہ اس انصاری کے اسی گھر میں اس وقت حضرت حمزہ ؓ شراب نوشی اور گانا سننے میں محو تھے۔
گانے والی نے جب ان اونٹنیوں کو دیکھا اور ان کی فربہی اور جوانی پر نظر ڈالی اور ان کا گوشت بہت ہی لذیذ تصور کیا تو اس نے عالم مستی میں حضرت حمزہ ؓ کو گاتے گاتے یہ مصرع بھی بنا کر سنا دیا جو روایت میں مذکور ہے۔
(پوار شعر یوں ہے)
ألا یا حمز للشرف النواء و هن معقلات بالفناء حمزہ! اٹھو یہ عمر والی موٹی اونٹیاں جو مکان کے صحن میں بندھی ہوئی ہیں، ان کو کاٹو، اور ان کا گوشت بھون کر کھاؤ اور ہم کو کھلاؤ۔
حضرت حمزہ ؓ پر مستی سوارتھی، شعر سنتے ہی فوراً تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور عالم بے ہوشی میں ان ہر دو اونٹنیوں پر حملہ کر دیا اور ان کے کلیجے نکال کر، کوہان کاٹ کر گوشت کا بہترین حصہ کباب کے لیے لے آئے۔
حضرت علی ؓ نے یہ جگر خراش منظر دیکھا تو اپنے محترم چچا کا احترام سامنے رکھتے ہوئے وہاں ایک لفظ زبان پر نہ لائے بلکہ سیدھے آنحضر ت ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔
اس وقت زید بن حارثہ ؓ بھی وہاں موجود تھے۔
چنانچہ آپ نے سار واقعہ آنحضرت ﷺ کو سنایا اور اپنی اس پریشانی کو تفصیل سے بیان کیا۔
جسے سن کر آنحضرت ﷺ زید بن حارثہ ؓ اور آپ کو ہمراہ لے کر فوراً ہی موقع پر معائنہ فرمانے کے لیے چل کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ ؓ کے پاس پہنچے جو کہ ابھی تک شراب اور کباب کے نشہ میں چور تھے۔
آنحضرت ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ پر اظہار خفگی فرمایا مگر حمزہ کے ہوش و حواس شراب و کباب میں گم تھے۔
وہ صحیح غور نہ کرسکے بلکہ الٹا اس پر خود ہی اظہار خفگی فرمایا۔
اور وہ الفاظ کہے جو روایت میں مذکورہیں۔
مولانا فرماتے ہیں حضرت حمزہ اس وقت نشہ میں تھے۔
اس لیے ایسا کہنے سے وہ گنہگار نہیں ہوئے دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور آنحضرت ﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ اور حضرت علی ؓ کے والد حضرت ابوطالب دونوں ان کے لڑکے تھے اور لڑکا گویا اپنے باپ کا غلام ہی ہوتا ہے۔
یہ حالات دیکھ کر آنحضرت ﷺ خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔
اس وقت یہی مناسب تھا۔
شاید حمزہ کچھ اور کہہ بیٹھتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ ان کا نشہ اترنے کے بعد آپ ﷺ نے ان سے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی ؓ کو دلوائی۔
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ ان پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں، اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2375   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3091  
3091. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3091]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث کو حضرت امام یہاں اس لئے لائے کہ اس میں اموال غنیمت کے خمس میں سے حضرت على ؓ کو ایک جوان اونٹنی ملنے کا ذکر ہے۔
یہ اونٹنی اس مال میں سے تھی جو عبداللہ بن جحش ؓ کی ماتحت فوج نے حاصل کیا تھا۔
یہ جنگ بدر سے دومہینے پہلے کا واقعہ ہے۔
اس وقت تک خمس کاحکم نہیں اتراتھا۔
لیکن عبداللہ بن جحش ؓنے چار حصے تو فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ اپنی رائے سے آنحضرت ﷺ کے لئے رکھ چھوڑا۔
پھر قرآن شریف میں بھی ایسا ہی حکم نازل ہوا۔
دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت حمزہ ؓ کے پاس ایک گانے والی بھی تھی جس نے گانے کے دوران ان جوان اونٹنیوں کے کلیجے سے کباب بنانے اورکھانے کی حضرت حمزہ ؓ کو ترغیب دلائی اور اس پر وہ نشے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور ان اونٹنیوں کو کاٹ کر ان کے کلیجے نکال لئے۔
حضرت علی ؓ کا صدمہ بھی بجا تھا اور پاس ادب بھی ضروری‘ اس لئے وہ غصہ کو پی کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔
آنحضرت ﷺ مقدمہ کے حالات کا معائنہ فرمانے کے لئے خود تشریف لے گئے۔
حضرت حمزہ ؓ اس وقت نشہ میں چور تھے۔
شراب اسوقت تک حرام نہیں ہوئی تھی‘ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ ؓ کے منہ سے بے ادبی کے الفاظ نکل گئے۔
ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کے ہوش میں آنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ان اونٹنیوں کا تاوان دلایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3091   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2089  
2089. حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ مال غنیمت میں سے مجھے ایک اونٹ حصے میں ملا اور نبی ﷺ نے مجھے ایک اور اونٹ خمس میں سےدیا۔ جب میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول اللہ ﷺ کی رخصتی کرانے کا ارادہ کیا تو بنو قینقاع کے ایک زرگر سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر کاٹ کر لائیں۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں کے پاس فروخت کرکے اپنی شادی کے ولیمے میں اس سے کچھ مدد حاصل کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2089]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی سناروں کا ذکر ہے۔
جس سے عہد رسالت میں اس پیشہ کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ رزق حلال تلاش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہئے۔
جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود جاکر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے فروخت کی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ دولہا کی طرف سے ہوتا ہے۔
بنی قینقاع مدینہ میں یہودیوںکے ایک خاندان کا نام تھا۔
علی بن حسین امام زین العابدین کا نام ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔
کنیت ابوالحسن ہے۔
اکابر سادات میں سے تھے۔
تابعین میں جلیل القدر اور شہرت یافتہ تھے۔
امام زہری نے فرمایا کہ قریش میں کسی کو میں نے ان سے بہتر نہیں پایا۔
94ھ میں اتنقال فرمایا۔
بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ اثنا عشرہ کی روایتیں نہیں لی ہیں۔
ان معترضین کے جواب میں امام زین العابدین کی یہ روایت موجو دہے جو ائمہ اثنا عشر میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2089   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5793  
5793. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5793]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاں چادر اوڑھ کر چلنے لگے، باب سے یہی مطابقت ہے مفصل حدیث کئی جگہ ذکر میں آچکی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5793   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2375  
2375. حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میں نے بدر کے دن مال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حاصل کی اور ایک اونٹنی مجھے رسول اللہ ﷺ نے عطا کی تھی۔ میں نے ایک دن ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری شخص کے دروازے پر بٹھا دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں ان پر اذخر گھاس لا کر فروخت کروں۔ میرے ساتھ بنو قینقاع کا ایک زرگر بھی تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اس کی مدد حاصل کروں اور اذخر فروخت کر کے حضرت فاطمہ ؓ سے شادی کا ولیمہ کروں۔ اس وقت حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ؓ اس گھر میں مے نوشی کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی عورت بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرع گایا: اے حمزہ! اٹھو فر بہ جوان اونٹنیوں کے لیے، تو حمزہ ؓ تلوار لے کر ان کی طرف جھپٹ پڑے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ بھی پھاڑ ڈالے، پھر ان دونوں کی کلیجیاں نکال لیں۔ (راوی حدیث ابن جریج کہتے ہیں کہ)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2375]
حدیث حاشیہ:
(1)
اذخر ایک خاص قسم کی خوشبودار گھاس ہے، اسے سنار بھی استعمال کرتے ہیں۔
حضرت علی ؓ چاہتے تھے کہ اونٹنیوں پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں گا اور اسے کسی زرگر کے پاس فروخت کر کے اپنی شادی کا ولیمہ کروں گا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس طویل روایت سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنگل سے گھاس کاٹنا اور اسے فروخت کرنا جائز ہے۔
اذخر ایک ایسی گھاس ہے جسے کوئی اپنے لیے مخصوص نہیں کر سکتا، الا یہ کہ وہ اس کی ملکیتی زمین میں ہو۔
ہر شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جو شخص بھی اسے پہلے کاٹ لے گا وہی اس کا مالک ہو گا۔
بہرحال جلانے کی لکڑی اور گھاس وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2375   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3091  
3091. حضرت علی ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ غزوہ بددر میں غنیمت کے مال سے ایک اونٹنی میرے حصے مین آئی اور ایک اونٹنی مجھے نبی کریم ﷺ نے خمس کے مال سے عطا کی۔ جب میرا ارادہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نکاح کےبعد اپنے گھر لاؤں تو میں نے طے کیا کہ بنو قینقاع کے ایک زرگر کواپنے ساتھ لوں اور ہم دونوں اذخر گھاس لائیں، پھر میں اس گھاس کو سناروں کے ہاں فروخت کرکے اس کی قیمت سے اپنے نکاح کاولیمہ کروں۔ میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان، پالان، تھیلے اور رسیاں وغیرہ جمع کررہا تھا جبکہ میری وہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے مکان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب میں جمع کردہ سامان لے کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ لیے گئے ہیں اور ان کے پیٹ چاک کرکے اندر سے ان کی کلیجی بھی نکال لی گئی ہے۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو بے اختیار رونے لگا۔ میں نے پوچھا: یہ حرکت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3091]
حدیث حاشیہ:

مدنی دورکے آغاز میں شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمان شراب نوشی کرتے تھے۔
غزوہ احد کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی قطعی حرمت کے احکام نازل فرمائے۔
حضرت حمزہ ؓ سے نشے کی حالت میں خلاف ادب الفاظ صادر ہوئے اس لیے رسول اللہ ﷺنے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔
البتہ اونٹنیوں کو ہلاک کرنے کا مالی تاوان ضروری تھا۔
رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ﷺ کو تاوان دلایا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ؒنے مصنف ابن شیبہ ؒکے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کے ہوش آنے کے بعد رسول اللہ ﷺنے حضرت علی ؓ کو ہلاک شدہ اونٹنیوں کا حضرت حمزہ ؓ سے تاوان دلایا۔
(فتح الباري: 241/6)

اس لمبی حدیث کو امام بخاری ؒنے اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس میں مال غنیمت کے خمس سے حضرت علی ؓکو ایک جوان اونٹنی دینے کا ذکر ہے۔

واضح رہے کہ خمس کی آیت بدر کی غنیمت کے متعلق نازل ہوئی اس لیے مال غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا گیا۔
اس میں سے ایک اونٹنی حضرت علی ؓ کو ملی تھی اور دوسری اونٹنی رسول اللہ ﷺنے انھیں مال خمس سے دی تھی جو آپ کو غنیمت کے مال سے حاصل ہوا تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3091   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5793  
5793. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5793]
حدیث حاشیہ:
یہ ایک لمبی حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اختصار سے بیان کیا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حرمت شراب سے پہلے شراب نوشی کی، پھر انہوں نے نشے کی حالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو اونٹنیوں کو ذبح کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ چادر زیب تن کیے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقصان کی تلافی کریں، لیکن اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں دھت تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چادر پہننا ثابت کیا ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں چادر پہننے کا ذکر آیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5793