الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
28. بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ:
28. باب: قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 393
قَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلَ مَيْمُونُ بْنُ سِيَاهٍ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، مَا يُحَرِّمُ دَمَ الْعَبْدِ وَمَالَهُ؟ فَقَالَ: مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَصَلَّى صَلَاتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، فَهُوَ الْمُسْلِمُ لَهُ مَا لِلْمُسْلِمِ وَعَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُسْلِمِ.
ابن ابی مریم نے کہا، ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے حمید نے حدیث بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے حدیث بیان کی۔ علی بن عبداللہ بن مدینی نے فرمایا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میمون بن سیاہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ! آدمی کی جان اور مال پر زیادتی کو کیا چیزیں حرام کرتی ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے وہی حقوق ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو عام مسلمانوں پر ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 393 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:393  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کےاحوال ومعاملات کو ظاہر پر محمول کرنا چاہیے، اس بنا پر جو شخص شعار دین کو ظاہر کرے، اس پر اہل اسلام ہی کے احکام جاری کیے جائیں گے، جب تک اس سےدین کے خلاف کوئی بات ظاہر نہ ہو۔
اور اس میں استقبال قبلہ اور اکل ذبیحہ وغیرہ کا ذکر اس لیے ہوا کہ بعض اہل کتاب بھی اگرچہ اقرارتوحید کے ساتھ استقبال قبلہ کرتے ہیں مگر وہ ہماری نماز جیسی نماز نہیں پڑھتے اور نہ ہمارے قبلے کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے بے شمار غیر اللہ کے لیے ذبح کرتے ہیں اور بہت سے ہمارا ذبیحہ نہیں کھاتے، نیز کسی شخص کی نماز اور کھانے کا حال بہت جلد بلکہ پہلے ہی دن معلوم ہو جاتاہے، دوسرے امور دین کا حال جلدی معلوم نہیں ہوتا، اس لیے بھی چند چیزوں کے ذکر پر اکتفا کیاگیا ہے۔
(فتح الباري: 644/1)
اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ہمارے جیسی نماز نہ پڑھیں یا ہمارا ذبیحہ نہ کھائیں تو وہ خود بھی ہم سے کٹ گئے اور ہمارے دین سے اپنے دین کو الگ سمجھنے لگے، اس لیے ہمارے فیصلے سے پہلے ہی گویا انھوں نے اپنے متعلق فیصلہ دے دیا ہے۔

حدیث میں ذکر کردہ علامتیں اہل اسلام کی بڑی اور کھلی ہوئی علامات ہیں جن سے بڑی آسانی سے دین اسلام سے تعلق رکھنے والے دیگر اہل مذاہب سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔
گویا یہ علامتین اہل اسلام کے لیے شعار کے درجے میں ہوگئیں ہیں، لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ جن لوگوں میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں، انھیں ضرور ہی مسلمان خیال کیاجائے، خواہ وہ ضروریات دین کا انکار بھی کردیں اور وہ رسول اللہ ﷺ ہی کے ارشاد کے مطابق دین اسلام سے اس طرح خارج بھی ہوجائیں جس طرح تیر کمان سے نکل جاتاہے۔
ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص پورے دین کو مانتاہو، اس پر عمل پیرا بھی ہو، مگر ایک چھوٹی سے قرآنی سورت کا انکار کردے یا اس کا حکم نہ مانے یادانستہ طورپر اس کی غلط تاویل کرے تو اس کے کفر میں شک نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی توہین کامرکتب ہو، ان کی شان کے خلاف سخت نازیبا الفاظ استعمال کرے، دین کی تحریف کرے، احادیث واخبار، واقعات ومعجزات کا انکار واستہزاء کرے تو ایسے انسان کو کیسے داخل اسلام قراردیا جاسکتا ہے؟ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی نے ان سب موجبات کفر کاارتکاب کیا جبکہ ان میں سے صرف ایک کاارتکاب بھی ثبوت کفر کے لیے کافی تھا، لہذا یہ شخص کلمہ گو ہونے کے باوجود دین اسلام سے خارج اور مرتد ہے۔
اس کے کفرمیں تردد یا احتیاط کی ضرورت نہیں، کیونکہ جس طرح اکفارِ مسلم (مسلمان کو کافر کہنے)
پر دلیری کرنا گناہ ہے بالکل اسی طرح عدم اکفارِ کافر(کافر کو کافر نہ کہنا)
بھی گناہ ہے۔
نوٹ:
۔
اس حدیث کے پیش نظر یہودونصاریٰ اور مجوس ومشرکین کے متعلق فیصلہ تو واضح ہے لیکن مسلمانوں کے اندر جو فرق باطلہ پیدا ہوچکے ہیں، ان کے متعلق ایمان وکفر کا فیصلہ بہت غور وخوض کا متقاضی ہے۔
اس کے متعلق مفصل بحث آئندہ کتاب استتابة المرتدین حدیث: 6924 کے تحت کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 393