مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 240
´جب نمازی کی پشت پر (اچانک) کوئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُ، " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، إِذْ قَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْض، أَيُّكُمْ يَجِيءُ بِسَلَى جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَضَعُهُ عَلَى ظَهْرِ مُحَمَّدٍ، إِذَا سَجَدَ فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ، فَجَاءَ بِهِ . . .»
”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا لائے اور (لا کر) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا أُلْقِيَ عَلَى ظَهْرِ الْمُصَلِّي قَذَرٌ أَوْ جِيفَةٌ لَمْ تَفْسُدْ عَلَيْهِ صَلاَتُهُ:: 240]
� تشریح:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر نماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آ پڑے تو نماز ہو جائے گی۔ اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔ عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 240
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3185
3185. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ بحالت سجدہ تھے اورقریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح شدہ اونٹنی کی وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے گندگی سمیت اٹھا لایا اور نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر اسے ڈال دیا۔ آپ سجدے سے اپنا سرمبارک نہ اٹھا سکے حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓتشریف لائیں اور اس کو آپ کی پشت سے ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلاکہا۔ نبی کریم ﷺ نے بایں الفاظ بددعا کی: ”اے اللہ! قریش کی جماعت کو پکڑ لے۔ اے اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یاابی بن خلف کو برباد کر۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ بدر کی جنگ میں قتل ہوگئے اور ان کی لاشوں کو ایک اوندھے کنویں میں پھینک دیا گیا، البتہ امیہ یاابی بن خلف موٹا آدمی تھا جب اسے (کنویں میں پھینکنے کےلیے)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3185]
حدیث حاشیہ:
قریب ہی ایک اونٹنی نے بچہ جنا تھا۔
مشرکین اس کی بچہ دانی کا سامان ملبہ اٹھاکر لے آئے اور یہ حرکت کی جس پر آنحضرت ﷺ نے جب پانی سر سے گزرگیا تو ان کے حق میں یہ بددعا کی جس کا روایت میں ذکر ہے اور باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
لفظ سلاجزور اضافہ کے ساتھ ہے۔
(مراد اونٹنی کا بچہ دان)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3185
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3960
3960. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے قبلہ رو ہو کر کفار قریش کے چند لوگوں: شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے خلاف بددعا کی تھی۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کی لاشیں میدان بدر میں دیکھیں۔ سورج کی سخت حرارت نے ان کی لاشوں کو بدبودار کر دیا تھا اور یہ نہایت گرم دن تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3960]
حدیث حاشیہ:
یہ اسی دن کا واقعہ ہے جس دن ان ظالموں نے حضور صلیﷺ کی کمر مبارک پر بحالت نماز اونٹ کی اوجھڑی لاکر ڈال دی تھی اور خوش ہوہو کر ہنس رہے تھے۔
اللہ تعالی نے جلد ہی ان کے مظالم کا بدلہ ان کو دے دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3960
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 240
240. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے: تم میں سے کون جاتا ہے کہ فلاں قبیلے کی اونٹنی کی بچہ دانی لے آئے، جسے وہ سجدے کی حالت میں محمد (ﷺ) کی پشت پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر دیکھتا رہا۔ جب نبی ﷺ سجدے میں گئے تو اس نے اسے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر رکھ دیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ تو رہا تھا لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش کہ مجھے تحفظ حاصل ہوتا، پھر وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ سجدے ہی میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھایا تا آنکہ حضرت فاطمہ ؓا آئیں اور آپ کی پشت پر سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ تب آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور تین مرتبہ یوں بددعا کی: ”یا اللہ! قریش سے بدلہ لے۔“ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:240]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرنماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آپڑے تونماز ہوجائے گی۔
اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔
یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔
عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔
یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 240
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4649
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی بیٹھے ہوئے تھے اور گزشتہ کل ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی تو ابوجہل نے کہا تم میں سے کون، بنو فلاں کی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لائے گا اور جب محمد سجدہ کرے گا تو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے گا؟ تو سب سے بدبخت شخص اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، اسے آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4649]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
سَلَا جُزُور:
بچہ دانی،
حشیمہ۔
(2)
أشقَي القَوم:
قوم کا سب سے بدبخت آدمی،
یہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔
(3)
مَنَعَة:
مجھے پشت پناہی کی بنا پر قوت و طاقت حاصل ہوتی کیونکہ مکہ میں ان کا خاندان موجود نہیں تھا،
جو ان کی پشت پر ہوتا،
اگر اس کو مانع کی جمع بنائیں تو معنی ہو گا،
اگر میرے حمایتی اور دفاع کرنے والے ہوتے۔
(4)
ذَكَرَ السَّابَعَ:
عمرو بن میمون نے ساتویں عمارۃ بن ولید کا نام لیا تھا لیکن ابو اسحاق کو یاد نہیں رہا اور یہ ساتواں جنگ بدر میں شریک نہیں تھا اور القليل كالمعدوم کے تحت اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر نمازی پر نجاست ڈال دی جائے اور اسے اس کا پتہ نہ ہو کہ مجھ پر کیا ڈالا گیا ہے تو اس کی نماز ہو جائے گی،
نیز یہ واقعہ مکی زندگی میں پیش آیا،
جہاں ابھی احکام کی تفصیلات کا نزول نہیں ہوا تھا،
اس لیے اس کی نجاست معلوم نہ تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4649
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4650
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کچھ قریشی لوگ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک عقبہ بن ابی معیط اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر پھینک دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر نہ اٹھایا، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا آئیں اور انہوں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اٹھایا اور یہ حرکت کرنے والوں کو بددعا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4650]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تَقَطَّعَت أَوصَالُه:
اس کے جوڑ الگ الگ ہو گئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4650
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:240
240. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ آپس میں کہنے لگے: تم میں سے کون جاتا ہے کہ فلاں قبیلے کی اونٹنی کی بچہ دانی لے آئے، جسے وہ سجدے کی حالت میں محمد (ﷺ) کی پشت پر رکھ دے؟ چنانچہ ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت اٹھا اور اسے اٹھا لایا، پھر دیکھتا رہا۔ جب نبی ﷺ سجدے میں گئے تو اس نے اسے آپ کے دونوں شانوں کے درمیان پشت پر رکھ دیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ تو رہا تھا لیکن کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش کہ مجھے تحفظ حاصل ہوتا، پھر وہ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ سجدے ہی میں پڑے رہے، اپنا سر نہیں اٹھایا تا آنکہ حضرت فاطمہ ؓا آئیں اور آپ کی پشت پر سے اسے اٹھا کر پھینک دیا۔ تب آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور تین مرتبہ یوں بددعا کی: ”یا اللہ! قریش سے بدلہ لے۔“ رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:240]
حدیث حاشیہ:
1۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تراجم ابواب بخاری میں لکھتے ہیں:
امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ جو چیزیں ابتدائے نماز میں دخول کےلیے مانع قراردی گئی ہیں اگر اثنائے نماز میں بدن یا کپڑے کولگ جائیں تو یہ چیزیں بقائے نماز کے لیے نقصان دہ نہیں، گویا آپ ابتدا اور بقا کا فرق بیان کررہے ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ دوران نمازمیں اگر کوئی نمازی پر گندگی پھینک دے یا مردار کے جسم کا کوئی حصہ ڈال دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔
دراصل امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں ایک مسئلہ بیان کیا تھا کہ پانی میں اگرپیشاب وغیرہ پڑ جائے تو پانی اس وقت نجس ہوگا جب اس کا اثر پانی میں ظاہر ہوجائے۔
اس پر اعتراض ہوا کہ سبب نجاست موجود ہے۔
لیکن حکم نجاست ندارد! یہ عجیب بات ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس اشکال کو دور کرنے کے لیے نماز کا مسئلہ بیان کردیا کہ بعض اوقات دوران نماز میں سبب نجاست موجود ہوتا ہے، لیکن حکم نجاست مؤخر کردیا جاتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کی جارہی ہے۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عمر ؓ کا ایک اثر پیش کیا ہے جسے مصنف ابن ابی شیبہ (317/3)
میں موصولاً بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ نماز کی حالت میں کپڑے پر خون کا اثر دیکھتے تو اگر کپڑے اتار سکتے تو اتاردیتے، بصورت دیگر نماز سے ہٹ کر اسے دھوتے اور پھر باقی نماز بنا کرکے پوری کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے امر مذکور کی تصحیح کے بعد لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ابتداء اوردوام میں فرق کرتے تھے اور یہی قول ایک جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین ؒ کا ہے۔
(فتح الباري: 453/1)
اس اثر کے جواب میں علامہ عینی لکھتے ہیں کہ اثر مذکور کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت نماز اگر نمازی پر کوئی نجاست گر جائے تو اس سے نماز خراب نہیں ہوتی، جبکہ حضرت ابن عمرؓ اگردوران نماز میں اپنے کپڑے پر کوئی خون کا نشان دیکھتے تو اسے اتار دیتے اور نماز جاری رکھتے تھے، یعنی کپڑے پر نجاست کی موجودگی میں وہ نماز جائز نہ سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ اسے اتار کر الگ کردیتے، لہذا حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق یہ کہنا کہ وہ ابتدا اور دوام میں فرق کرتے تھے۔
درست نہیں، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کسی حالت میں بھی نجاست آلود کپڑے میں نماز درست نہ سمجھتے تھے۔
(عمدة القاري: 671/2)
امام شعبی اور سعید بن مسیب ؒ کا اثر بھی مصنف ابن ابی شیبہ (463/3)
میں موصولاً بیان ہوا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ اگرچہ تمام ائمہ سے الگ ہے، تاہم روایت مذکور سے اسے تقویت ملتی ہے، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں نماز کو جاری رکھا اور سلام کے بعد ان کے حق میں بددعا فرمائی۔
(فتح الباري: 456/1)
لیکن حافظ ا بن حجرؒ نے لکھا ہے کہ آپ پر نجاست پھینکنے کا واقعہ نماز کے وقت کپڑے پاک رکھنے کےحکم سے پہلے کا ہے، چنانچہ ابن منذر سے منقول ہے کہ یہ واقعہ آیت:
﴿ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ﴾ کے نزول سے پہلے کا ہے، بلکہ اس آیت کی شان نزول ہی یہ واقعہ ہے۔
(فتح الباري: 866/8)
مگر اس پر یہ اشکال ہے کہ داخلی قرائن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورہ مدثر کے نزول سے پہلے لوگوں کو آپ سے اس قدر عداوت نہ تھی کہ وہ دوران نماز میں آپ سے اس طرح کی حرکت کریں، کیونکہ سورہ مدثر فترتِ وحی کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس فترت کے تین سال ہیں۔
اس سورت میں آپ کو تبلیغ کرنے کا حکم ہوا اور تبلیغ کرنے کے نتیجے میں آپ سے لوگوں کی عداوت کا آغاز ہوا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سورت کے نزول کے بعد کا ہے۔
واللہ أعلم۔
3۔
روایت میں ہے کہ ساتویں شخص کا نام بھی لیا، لیکن راوی کو بھول گیا، بھولنے والے ابواسحاق راوی حدیث ہیں، کبھی ان کو یاد آتا تو اس کی وضاحت کر دیتے۔
جیسا کہ امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں صراحت کی ہے کہ وہ عمارہ بن ولید تھا۔
(صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 520)
لیکن عمارہ بن ولید غزوہ بدر کے موقع پر نہیں مرا بلکہ وہ حبشہ کی سرزمین پر واصل جہنم ہوا، جبکہ اس نے نجاشی کی عورت کے ساتھ شرارت کی تھی۔
(فتح الباري: 457/1)
اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بھی میدان بدر میں نہیں ماراگیا، بلکہ اسے میدان بدر میں قید کر کے مدینہ کے پاس پہنچ کر قتل کیا گیا۔
جیسا کہ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے۔
اسے عرق الظبیہ کے مقام پر خود رسول اللہ ﷺ نے قتل کیا اور آپ نے اسے قتل کرتے وقت نجاست ڈالنے کا واقعہ بھی یاد دلایا۔
(عمدة القاری: 677/2)
معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ کا یہ کہنا:
میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ جن کارسول اللہ ﷺ نے نام لیا تھا، وہ بدر کے کنویں میں مرے پڑے تھے، یہ اکثریت کی بنا پر ہے، کیونکہ تمام کے تمام اس کنویں میں نہیں پھینکے گئے تھے۔
(فتح الباري: 457/1)
4۔
حضرت فاطمہ ؓ کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نسبی شرافت اور بلندی مرتبہ کے ساتھ ساتھ حوصلے اور دل کی بھی مضبوط تھیں۔
یہی وجہ ہے کہ انھوں نے برملا طور پر سرداران قریش کو بُرا بھلا کہا اور کسی کو ان کے مقابلے میں جواب دینے کی بھی جرائت نہ ہوسکی۔
(فتح الباري: 458/1)
5۔
بہرحال امام بخاری ؒ کا یہی موقف ہے کہ دوران نماز نجاست لگنے سے نماز میں خلل نہیں آتا، البتہ نماز کے آغاز میں ہر قسم کی طہارت کا اہتمام ضروری ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:520
520. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور کفار قریش کی ایک جماعت بھی وہاں مجلس لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا: کیا تم اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا جو فلاں خاندان کی ذبح شدہ اونٹنی کے پاس جائے اور اس کے گوبر، خون اور بچہ دانی کو اٹھا کر لائے؟ پھر اس کا انتظار کرے، جب یہ سجدے میں جائے تو ان تمام چیزوں کو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے؟ چنانچہ اس جماعت کا سب سے بڑا بدبخت اس کام کے لیے تیار ہوا اور اسے اٹھا لایا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ سجدے میں گر گئے تو اس نے سب کچھ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا۔ نبی ﷺ بحالت سجدہ ٹھہرے رہے اور کافر (رسول اللہ ﷺ کی) اس حالت پر بری طرح ہنستے رہے۔ اور وہ ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرتے جا رہے تھے۔ اندریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:520]
حدیث حاشیہ:
1۔
ابن بطال شارح صحیح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ عنوان بھی سابقہ عناوین سے ملتا جلتا ہے کہ عورت جب نمازی کی پشت پر سے کوئی چیز دور کرے گی تو جس جانب سے ہٹانے میں اسے آسانی ہوگی عورت کو اسی جانب جانا ہو گا، اس لیے کمر سے بوجھ ہٹانے کا مضمون سامنے سے گزرنے کے مضمون سے اگر زیادہ اہم نہیں تو اس سے کم بھی نہیں۔
(شرح ابن بطال: 146/2)
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ایک طرف تو عورت کے معاملے میں تشدد کی رواہ اختیار کرنے والوں کو تنبیہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب اسے چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں، جب اتصال جسمانی سے بھی نماز ختم نہیں ہوتی تو اسے نماز کے لیے سترہ بنانے میں بدرجہ اولیٰ نقصان دہ نہیں ہونا چاہیے۔
2۔
ابن بطال نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار کے خلاف بددعا اس وقت فرمائی جب آپ ان سے راہ حق اختیار کرنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت بخشا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے:
﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾ ”ہم آپ کی طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو کافی ہیں۔
“ (الحجر: 15/95)
لیکن جن لوگوں کے متعلق قبول ہدایت کی امید تھی ان کے لیے آپ نے ہدایت قبول کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔
(شرح ابن بطال: 167/2)
اگر قرائن سے کفارکے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہ اپنی حرکات شینعہ سے باز آنے والے نہیں تو ان کے حق میں ان بنام بددعا کرنا جائز ہے، کیونکہ مومن کا آخری ہتھیار دعاہی ہوتا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور وہ سب بدر کی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اور ہمیشہ کے لیے اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔
3۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں عمارہ بن ولید کو قلیب بدر والوں میں شمار کرنا وجہ اشکال بنا ہے، کیونکہ اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ اس کی موت حبشہ میں ہوئی تھی، جبکہ نجاشی شاہ حبشہ نے اس کی غلط روش پر تنبیہ کرنے کے لیے ایک جادو گر کے ذریعے سے اس پر جادو کرایا تھا۔
جس کی بنا پر وہ حبشی جانوروں کی طرح گلی کوچوں میں دوڑتا اور مارامارا پھرتا۔
حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں بایں حالت ہی اسے موت آئی۔
اس اشکال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے ان اشرار قریش میں سے اکثر کو بدر کے کنویں میں دیکھا ہو گا۔
(فتح الباري: 457/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 520
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2934
2934. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کعبہ کے سائے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اور قریش کے چند لوگوں نے مشورہ کیا (کہ آپ کو تنگ کیا جائے) چنانچہ مکہ سے باہر ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی، انھوں نے اپنے آدمی بھیجے وہ اس کی وہ جھلی اٹھالائے جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے اور اسے آپ ﷺ پر ڈال دیا۔ اس کے بعد سیدہ فاطمہ ؓ آئیں، انھوں نے اس (جھلی) کو آپ سے الگ کرکے دور پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اے اللہ!قریش کو پکڑ لے۔ اے اللہ!قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔“ ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابی بن خلف، اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے بددعا فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سب کو بدر کے گندے کنویں میں مقتول دیکھا۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے کہا: میں ساتویں شخص کا نام بھول گیا۔ یوسف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2934]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں قریش کے لیے بالعموم بددعا کرنے کے بعد بالخصوص سات آدمیوں پر بددعا کا ذکر ہے چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 520)
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب قریش پر بددعا کی تو ان پر بہت گراں گزری کیونکہ انھیں یقین تھا کہ اس شہر میں خاص طور پر بیت اللہ میں دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 240)
2۔
راوی جس ساتویں شخص کانام بھول گیا وہ عمارہ بن ولید ہے جیسا کہ دوسری روایت سے ظاہر ہے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 520)
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ہنگامی حالات میں ایک طبقے کے خلاف بددعا کی ہے۔
اسی طرح جنگی حالات میں بھی مشرکین کے خلاف یعنی ان کی شکست اور ان کے قدم پھسلنے کی دعا کی جا سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2934
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3185
3185. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ بحالت سجدہ تھے اورقریب ہی قریش کے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک عقبہ بن ابی معیط ایک ذبح شدہ اونٹنی کی وہ جھلی جس میں بچہ لپٹا ہوتا ہے گندگی سمیت اٹھا لایا اور نبی کریم ﷺ کی پشت مبارک پر اسے ڈال دیا۔ آپ سجدے سے اپنا سرمبارک نہ اٹھا سکے حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓتشریف لائیں اور اس کو آپ کی پشت سے ہٹایا اور جس نے یہ حرکت کی تھی اسے برا بھلاکہا۔ نبی کریم ﷺ نے بایں الفاظ بددعا کی: ”اے اللہ! قریش کی جماعت کو پکڑ لے۔ اے اللہ! ابو جہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط، امیہ بن خلف یاابی بن خلف کو برباد کر۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ بدر کی جنگ میں قتل ہوگئے اور ان کی لاشوں کو ایک اوندھے کنویں میں پھینک دیا گیا، البتہ امیہ یاابی بن خلف موٹا آدمی تھا جب اسے (کنویں میں پھینکنے کےلیے)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3185]
حدیث حاشیہ:
1۔
امیہ بن خلف غزوہ بدر میں قتل ہوااور اس کا بھائی ابی بن خلف احد کی جنگ میں جہنم واصل ہوا۔
اسی طرح عقبہ بن ابی معیط بدر میں قتل نہیں ہوا۔
بلکہ وہ جنگی قیدی بنا اور رسول اللہ ﷺنے اسے قتل کروایا۔
گرم ترین دن کی وجہ سے مشرکین کی لاشیں پھٹ چکی تھیں اور ورم آجانے کی بنا پر ان کا رنگ سیاہ ہو گیا تھا مشرکین کی لاشوں کی قیمت لینے کی بجائے انھیں ایک بے آباد اندھے کنویں میں پھینک گیا۔
کیونکہ خریدو فروخت کرتے وقت بیچی جانے والی چیز کا کچھ نہ کچھ اعزاز ضرور ہوتا ہے جس کی بنا پر اس کی قیمت پڑتی ہے ہمیں مشرکین کی لاشیں فروخت کرنے سے اس لیے منع کیا گیا کہ ان کا اعزاز نہ ہو۔
2۔
امام بخاری ؒنےعنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مشرکین کا ایک آدمی غزوہ خندق کے موقع پر خندق میں گھس آیا تھا جسے ماردیا گیا تو مشرکین نے اس کی لاش کو خریدنا چاہا تو آپ نے فرمایا:
”ہمیں نہ تو اس لاش کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کی قیمت ہی وصول کرنا چاہتے ہیں۔
(جامع الترمذي، الجهاد، حدیث: 1715)
سیرت ابن ہشام میں ہے مشرکین اس کی دس ہزار درہم قیمت ادا کرنا چاہتے تھے۔
(السیرة النبویة لابن هشام: 3/ 186 و فتح الباري: 340/6)
3۔
رسول اللہ ﷺ مقتولین بدر کی لاشیں فروخت کر سکتے تھے کیونکہ وہ مکہ کے رئیس تھے اور ان کے رشتہ دار بہت امیر تھے۔
وہ بھاری قیمت ادا کر کے انھیں خرید سکتے تھے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ انھیں کنویں میں پھینک کر نیست و نابود کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3185
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3960
3960. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے قبلہ رو ہو کر کفار قریش کے چند لوگوں: شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور ابوجہل بن ہشام کے خلاف بددعا کی تھی۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے ان کی لاشیں میدان بدر میں دیکھیں۔ سورج کی سخت حرارت نے ان کی لاشوں کو بدبودار کر دیا تھا اور یہ نہایت گرم دن تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3960]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہﷺ خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے جبکہ سرداران قریش کچھ دوربیٹھے تھے۔
ان میں سے عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ذبح شدہ اونٹ کی اوجھڑی گندگی سمیت لایا اور اسے آپ کی پیٹھ پر رکھ دیا۔
وہ اتنی بوجھل تھی کہ آپ اس کی وجہ سے اٹھ نہ سکے۔
سیدہ فاطمہ ؓ آئیں اور انھوں نے اسے دور کیا۔
اس وقت رسول اللہ ﷺ نے نام بنام ان کے متعلق بددعا کی جس کا اس حدیث میں ذکر ہے۔
یہ سب کے سب غزوہ بدر میں مارے گئے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 240)
2۔
یہ لوگ معاشرے میں عضو فاسد کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، اس لیے ان کا کاٹ دینا ہی مناسب تھا، اس لیے آپ نے ان کے لیے بددعا کی اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا۔
ساری قوم کے لیے بددعا کرنا رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں۔
البتہ حضرت نوح ؑ اورحضرت موسیٰ ؑ سے ساری قوم کے لیے بددعا کرنا ثابت ہے جو ان کی شان جلالی کا مظہر ہے۔
قیامت کے دن وہ اس کے متعلق افسوس کا اظہار کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3960