ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عباس بن سہل نے اور ان سے ابو حمید ساعدی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”انصار کا سب سے بہترین گھرانہ بنو نجار کا گھرانہ ہے پھر بنو عبدالاشھل کا پھر بنی حارث کا، پھر بنی ساعدہ کا اور انصار کے تمام گھرانوں میں خیر ہے۔ پھر ہماری ملاقات سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو وہ ابواسید رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے تمہیں معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے بہترین گھرانوں کی تعریف کی اور ہمیں (بنو ساعدہ) کو سب سے اخیر میں رکھا تو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انصار کے سب سے بہترین خاندانوں کا بیان ہوا اور ہم سب سے اخیر میں کر دیئے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا خاندان بھی بہترین خاندان ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3791]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3791
حدیث حاشیہ: آخر میں رہے تو کیا اور اول میں رہے تو کیا بہر حال تمہارا خاندان بھی بہترین خاندان ہے اس پر تم کو خوش ہونا چاہیے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس بارے میں حضرت سعد بن عبادہ نے آنحضرت ﷺ سے عرض کرنا چاہا تھا مگر وہ اپنے بھتیجے کے کہنے پر رک گئے اور اپنے خیال سے رجوع کرلیا، یہاں آنحضرت ﷺ سے ملنا اور اس خیال کا ظاہر کرنا مذکور ہے ہردو میں تطبیق یہ ہوسکتی ہے کہ اس وقت وہ اس خیال سے رک گئے ہوں گے، بعد میں جب ملاقات ہوئی ہوگی تو آپ سے دریافت کرلیا ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3791
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3791
حدیث حاشیہ: 1۔ اس مقام پر جو انصار کے گھرانوں میں خیر و برکت کا ذکر ہوا ہے وہ مجموعی طور پر ہے۔ اگر خصوصیت کے ساتھ ہر فرد کو دیکھا جائے تو بنو ساعدہ کے بعض افراد بنو نجار کے بعض اشخاص سے افضل ہوں گے چنانچہ حضرت اسید بن حضیر سعد بن معاذ ؓ اور عباد بن بشر ؓ اشبلی ہونے کے باوجود بہت سے بنو نجار کے افراد سے افضل ہیں قبل ازیں روایت میں تھا کہ حضرت سعد بن عباد ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کرنا چاہا تھا مگر وہ اپنے بھتیجے کے کہنے سے رک گئے اور اپنے خیال سے رجوع کر لیا اور اس روایت میں ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ملے اور آپ سے عرض کی؟ ان دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ پہلے وہ اپنے خیال سے رک گئے بعد میں جب اتفاقاً ملاقات ہوئی تو آپ سے عرض کیا ہو گا۔ (فتح الباري: 148/7) 2۔ واضح رہے کہ فضیلت میں مذکورہ درجہ بندی قبولیت اسلام میں سبقت نصرت دین میں اولیت اور دل و جان سے رسول اللہ ﷺ پر فدائیت کی بنیاد پر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3791