ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بوجہ آنکھ دکھنے کے نہیں آ سکے تھے، پھر انہوں نے سوچا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہو سکوں! چنانچہ گھر سے نکلے اور آپ کے لشکر سے جا ملے، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں ایک ایسے شخص کو عَلم دوں گا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ کل) ایک ایسا شخص عَلم کو لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت ہے یا آپ نے یہ فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائے گا، اتفاق سے علی رضی اللہ عنہ آ گئے، حالانکہ ان کے آنے کی ہمیں امید نہیں تھی لوگوں نے بتایا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَلم انہیں دے دیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرا دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3702]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3702
حدیث حاشیہ: حضرت علی ؓ سے بیعت خلافت اوائل ماہ ذی الحجہ 35 ھ میں ہوئی تھی جسے جمہور مسلمانوں نے تسلیم کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3702
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3702
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے دو معجزے ہوئے ہیں: ایک قولی کہ آپ نے فرمایا: ”میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جو خیبر فتح کرے گا۔ “ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور دوسرافعلی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا توان کی آنکھیں صحیح ہوگئیں۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت علی ؓ کی شجاعت وبہادری کا ذکر ہے،نیز ان کی فضیلت کا بیان ہے کہ ان سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے خوگر ہیں۔ 3۔ سرخ اونٹ،عربوں کے ہاں بہت قیمتی اور نفیس مال شمار ہوتے تھے نیز کسی چیز کی نفاست بیان کرنے کے لیے ان الفاظ کو بیان کیا جاتاہے اور آخرت کو دنیا کے سازوسامان سے تشبیہ دینا صرف سمجھانے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہے ورنہ آخرت کا معمولی سا زرہ تمام دنیا اور اس کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جنگ وقتال کا قطعاً حامی نہیں بلکہ یہ امن چاہتا ہے۔ ا س کی جنگ صرف مدافعانہ ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضر ت علی ؓ کو جو ہدایت دی اس کا مطلب یہ بھی تھاکہ جہاں تک ممکن ہو لڑائی کی نوبت نہ آئے بلکہ ان کی حتی المقدوررہنمائی کی جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3702